ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
اَحَدًا مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخِرِیْنَ مِنَ الْیَقِیْنِ فَخُصَّنِیْ بِہ یَارَبَّ الْعَالَمِیْنَ قَالَ فَوَ اللّٰہِ مَا اَلْحَحْتُ بِہ اُسْبُوْعًا حَتّٰی بَعَثَ اِلَیَّ مُعٰوِیَةُ بِاَلْفِ اَلْفٍ وَخَمْسِ مِائَةِ اَلْفٍ فَقُلْتُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَایَنْسٰی مَنْ ذَکَرَہ وَلَایَخِیْبُ مَنْ دَعَاہُ فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ ۖ فِی الْمَنَامِ فَقَالَ یَاحَسَنُ کَیْفَ اَنْتَ فَقُلْتُ بِخَیْرٍ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَحَدَّثْتُہ بِحَدِیْثِیْ فَقَالَ یَابُنَیَّ ھٰذَا مَنْ رَجَا الْخَالِقَ وَلَمْ یَرْجُ اِلَی الْمَخْلُوْقِ ۔ (کذا فی تاریخ الخلفائ) بیہقی اور ابن عساکر محدثین نے روایت کیا ہے کہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما خرچ سے تنگ ہوئے اور اُن کا وظیفہ سالانہ ایک لاکھ (درہم یا دینار) تھا (یہ اُس زمانہ میں جبکہ اُنہوں نے سلطنت مسلمانوں کی خونریزی ہونے کی وجہ سے چھوڑدی تھی اور یہ قصَّہ طویل ہے نہ اِس کی نقل کا یہ موقع ہے) سو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک سال وظیفۂ مذکورہ روک لیا اور نہ بھیجا پس خرچ کی سخت تکلیف ہوئی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوات منگائی تاکہ (حضرت) امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھوں اور یاد دِلائوں یہ بات، پھر میں رُک گیا ۔ ١ اغالبًا رُکنے کی وجہ کسی مخلوق سے رزق کی طلب مناسب نہ سمجھنا تھا جو ایک قسم کا شرک خفی ہے۔ اہل طریقت اِس کا بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ اللہ کے سوا کسی سے حتی المقدور آرزو اور فرمائش نہ کرے۔ اور آپ بہت بڑے سختی تھے، احیاء العلوم اور تاریخ الخلفاء میں مختلف حکایتیں آپ کے کمال سخاوت کی منقول ہیں مگر بعضے وقت تنگی میں انسان پریشان ہوجاتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ قصد کیا مگر خدائے تعالیٰ نے بچالیا اور اپنے محبوب نواسۂ محبوب کی شان عالی سے یہ بات گوارا نہ کی۔ بعض اوقات سخت مصائب اور تنگی کی وجہ سے بعضے انبیاء سے بھی لغزشیں جو اُن کے درجے کے خلاف تھیں گو گناہ نہ تھیں واقع ہوگئی ہیں۔ ایسی ہی لغزش یہ بھی ہے اگرچہ بیت المال میں آپ کا حق بھی تھا لیکن تاہم اپنی جیسے مخلوق سے فرمائش نامناسب تھی۔ پس مناسب یہ ہے کہ جو معاملہ یکبار طے ہوگیا وہ اگر برابر چلے، چلنے دے، زیادہ درپے نہ ہو اِس لیے کہ اِس میں خالق ِاکبر پر بھروسہ میں نقصان معلوم ہوتا ہے اسباب کی طرف بقدر حاجت بہت کم توجہ ہونی چاہیے۔