ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
عورتوں کو ضروری تنبیہ : آج کل عورتوں کی حالت یہ ہے کہ یوں چاہتی ہیں کہ شوہر ہمارا غلام رہے۔ بس رات دن ہماری ہی عبادت کیا کرے۔ اللہ تعالیٰ کا تو اِرشاد ہے کہ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالِّانْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (میں نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے) لیکن عورتوں کا مسلک یہ ہے کہ وَمَاخَلَقَ الْاَزْوَاجَ اِلَّالِیُطِیْعُوْنِ (شوہروں کو صرف اِس لیے پیدا کیا ہے تاکہ میری اطاعت کریں) ۔ (الخضوع) عورتوں کو چاہیے کہ شوہر کی اطاعت کیا کریں، اُس کا دل نہ دُکھایا کریں۔ آج کل عورتیں اِس کا ذرا بھی خیال نہیں کرتیں۔ وہ باہر سے دن بھر محنت اور مشقت اُٹھاکر گھر میں آرام کے واسطے آتا ہے۔ یہاں ایک محنت بیگم اِس غریب کو ستانے کے لیے موجود ہیں۔ کوئی بات نصیحت کی کہی تو ایک طعن (یا کوئی سخت کلمہ) بیچارے پر کس دیا۔ اور اگر کچھ تیز ہوا تو فرماتی ہیں کہ میں کسی کی لونڈی یا باندی تو نہیں جو مجھ کو ایسا ایسا کہتے ہو۔ خدا کے لیے شوہر کا دِل نہ دُکھایا کرو۔ اُس سے کوئی بڑی فرمائش نہ کیا کرو۔ اُس کی کسی بات کو رَد نہ کیا کرو (یعنی نافرمانی نہ کرو)۔ فرمائش اگر کوئی کیا کرو تو وقت دیکھا کرو آدمی کا دِل ہر وقت یکساں نہیں رہتا جب دیکھو کہ اِس وقت خاوند خوش ہے اُس وقت اَدب سے درخواست پیش کردیا کرو۔ شوہروں کو حقیر نہ سمجھو : اگر شوہر بے نمازی ہو اُس کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ عورتوں میں ایک مرض یہ بھی ہے کہ اگر وہ خود نماز روزہ کی پابند ہوتی ہیں اور شوہر اِن کو ایسا مل گیا جو آزاد ہے تو اُس کو وہ بہت حقیر سمجھتی ہیں اور اگر خاوند انگریزی پڑھا ہوا ہے پھر تو اُس کو وہ کافر اور اپنے آپ کو رابعہ بصری سے کم نہیں جانتیں۔ ہم نے مانا کہ وہ گنہگار ہے لیکن علماء سے مسئلہ تو پوچھو۔ دیکھو وہ کیا کہتے ہیں۔ اُس کے خاوند ہونے میں شبہ نہیں۔ اُس کے نکاح کے گواہ موجود ہیں۔ اُس کا شوہر ہونا معلوم ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ تم اُس کی اطاعت میں کوتاہی کرو۔ غرض زوجیت (یعنی بیوی ہونا) اطاعت کا سبب ہے۔ وہ ''یزید'' سہی مگر تمہارا تو وہ ''بایزید'' ہے تم کو نافرمانی کا کیا حق ہے۔ ہاں اگر وہ نماز روزہ سے منع کرتا ہے تو اُس میں اِس کی اطاعت نہ کرے۔ لیکن نماز روزہ سے مراد بھی فرض نماز روزہ ہے۔ نفل نماز روزہ سے اُس کی اطاعت مقدم ہے بلکہ فرائض کے متعلق بھی اگر وہ کہے کہ