ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
کیونکہ نہ تو طبعی طور پر وہ اِس کی احتیاج رکھتا ہے اور نہ اُس کی طبیعت پر جنسی خواہشات اور قوت مردمی کا وہ غلبہ ہوتا ہے جو آدمی کو بسا اَوقات عقل و شعور سے بیگانہ اور خوفِ خداوندی سے غافل کردیتا ہے۔ لہٰذا جو بوڑھا زنا کا مرتکب ہوتا ہے وہ گویا اپنی نہایت بے حیائی اور خبث ِطبیعت پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا ہر شخص کے حق میں بُرا ہے لیکن بادشاہ کے حق میں بہت ہی بُرا ہے کیونکہ عام طور پر جو لوگ جھوٹ بولتے ہیں وہ اِس بُرائی کا اِرتکاب اپنے کسی فائدہ کے حصول یا کسی نقصان کے دفعیہ کے لیے کرتے ہیں جبکہ ایک بادشاہ حاکم یہ مقصد بغیر جھوٹ بولے بھی حاصل کرنے پر قادر ہوتا ہے اور اُس کا جھوٹ بولنا نہ صرف بے فائدہ بلکہ نہایت مذموم ہوگا۔ اِسی پر تکبر کو قیاس کرلیا جائے کہ جو چیزیں عام طور پر انسان کو غرور وتکبر میں مبتلا کرتی ہیں جیسے مال و دولت، جاہ و اِقتدار وغیرہ، وہ اگر کسی شخص میں پائی جائیں اور وہ اِن چیزوں کی وجہ سے تکبر کرے تو اگرچہ اِس شخص کو بھی بُرا کہیں گے مگر اِس کا تکبر کرنا ایک طرح سے سمجھ میں بھی آتا ہے کہ اِسے وہ چیزیں حاصل ہیں جو تکبر کا موجب بنتی ہیں۔ اِس کے برخلاف اگر کوئی مفلس و نادار اور فقیر و قلاش تکبر کرے جو نہ تو مال و دولت رکھتا ہے اور نہ جاہ و اِقتدار وغیرہ کا مالک ہے تو اُس کا یہ فعل نہایت ہی بُرا ہوگا اور اِس کے بارے میں اِس کے علاوہ اور کیا کہا جائے گا کہ وہ خبث ِباطن اور طبیعت کی کمینگی میں مبتلا ہے۔ حدیث ِ پاک میں جو فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اُس کا تزکیہ نہیں فرمائیں گے اِس سے یا تو یہ مراد ہوسکتا ہے کہ اُس کی کسی طرح کی اچھائی اور تعریف نہ کریں گے اور یا یہ مراد ہوسکتا ہے کہ اپنے عفو و درگزر کے ذریعہ اُسے گناہوں سے پاک و صاف نہیں فرمائیں گے۔ تین چیزیں نجات دینے والی اور تین ہلاک کرنے والی ہیں : عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ قَالَ : ثَلٰث مُّنْجِیَات وَثلَاث مُّھْلِکَات۔ فَاَمَّاالْمُنْجِیَاتُ فَتَقْوَی اللّٰہِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَةِ ، وَالْقَوْلُ بِالْحَقِّ فِی الرِّضَا وَالسَّخَطِ، وَالْقَصْدُ فِی الْغِنٰی وَالْفَقْرِ۔ وَاَمَّاالْمُھْلِکَاتُ فَھَوًی مُّتَّبَع وَشُحّ مُّطَاع وَاِعْجَابُ الْمَرْئِ بِنَفْسِہ وَھِیَ اَشَدُّھُنَّ ۔ (شعب الایمان للامام البیہقی ، مشکٰوة ص ٤٣٤)