ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
ہیں۔ اَب اُن کا درجہ واضح ہے اور ان کے حق میں دلائل صاف موجو دہیں لیکن واقعہ ایک ایسا پیش آگیا شہادتِ عثمان کا، اور ماحول ایسا بن گیا مدینہ منورہ کا کہ اُس میں لوگ چکراگئے۔ اور یہ نہیں کہ عوام بلکہ خواص، اور خواص بھی نہیں اخص الخواص بھی چکراگئے، پریشان ہوگئے، ذہن نے صحیح کام نہیں کیا لیکن بعد کے زمانے میں یہی طے ہوا اور اُن لوگوں (مخالفین ِحضرت علی) کے رجوع کرنے سے یہ بات صاف ہوگئی کہ جو کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے صحیح وہ ہی ہے لیکن بہت بعد میں۔ حضرت علی کا موقف : وہ فرماتے تھے کہ خلیفہ ٔ وقت کو جنہوں نے قتل کیا ہے اُن سے بدلہ لیا جائے، باقی جو اُن کے گروپ کے لوگ تھے سارے کے سارے گروپ کو قاتل بناکر اُس سے بدلہ لینا یہ ممکن نہیں ہے، اِس سے تو پھر قبائلی لڑائی چِھڑجائے گی، جسے تم ماروگے وہ آدمی کہے گاکہ میں مارنے والوں میں تھا ہی نہیں، ٹھیک ہے آیا تھا میں، چڑھائی کی ہے لیکن یہ نیت تھی ہی نہیں کہ میں شہید کروں گا بس ہم تو گھیرائو کررہے تھے، جنہوں نے مارا ہے اُنہیں مارو۔ اصل قاتلین اُسی وقت مارے گئے تھے : اور جنہوں نے شہید کیا تھا اُن کو وہیں ماردیا گیا فورًا ہی، اُن کے نام بھی موجود ہیں اور وہ تین چار آدمی بنتے ہیں، وہ گھر ہی میں ماردیے بعد والوں نے۔ اُس وقت تو حضرت عثمان نے منع فرمادیا کہ لڑونہ کسی سے، تاکید کردی، لالچ بھی دے دیا کہ جو میرا غلام تلوار پھینک دے وہ آزاد ہے۔ بالکل نہیں چاہتے تھے وہ کہ تلوار اُن کے لیے اُٹھے۔ خود شہید ہونا اُنہوں نے گوارا فرمالیا، بہت مشکل کام ہے اِتنا تحمل۔ بہرحال وہ چیز ایک پیش آئی، اختلاف یہ ہوگیا ، کچھ صحابہ کرام کی رائے یہ تھی، یعنی حضرت ِ طلحہ، حضرتِ زبیر جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور حضرتِ عائشہ، حضرتِ معاویہ۔ اِدھر یہ بڑے بڑے حضرات تھے۔ ایک زوجۂ مطہرہ ہیں حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا، بہت ذہین، بہت عالم مگر نہیں سمجھ میں آیا، یہی سمجھ میں آیا کہ سب کو ماراجائے۔ لہٰذا بصرہ چلے گئے اور اُن سے کہا کہ اِن سرغنوں کو ہمارے حوالے کردو ، اُنہوں نے حوالے نہ کیا تو بصرہ پر حملہ کر دیا، بصرہ پر حملہ کیا تو وہ بھی مارے گئے اور دیگر بھی مارے گئے جو بصرہ ہی کے رہنے والے تھے، جو گئے ہی نہیں تھے سِرے سے وہ بھی ساتھ ساتھ مارے گئے اور ایک سرغنہ بھاگ گیا، جب وہ بھاگ