ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
کے اپنے قبیلے میں گیا اور اُس نے کہا ہم تو قاتلین میں نہیں تھے اور چار ہزار اُن قبیلہ والوں کی تعداد تھی، اب وہ چار ہزارکو ماریں اُس ایک کی خاطر تو یہ کیسے ہو؟ یہ تو غلط ہے، جنہوں نے ارتکاب کیا ہے اُن کو مارنا، یہ حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کی رائے تھی مگر سمجھ میں نہیں آرہی تھی اِن حضرات کی۔ جب بصرہ میں حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کے فرستادہ ایک صحابی گئے، اُنہوں نے گفتگو کی تو اُس وقت ملاقات میں سب نے یہ موقف تسلیم کیا اور لڑائی ختم ہوگئی تھی، بات ختم ہونے ہی کو تھی لیکن فسادی لوگ توتھے، یہ تو ظاہر بات ہے فسادی تو تھے ہی تھے۔ فسادی ہی غالب تھے، اُنہوں نے ہی حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، تو وہ فسادی اِس موقع سے فائدہ نہ اُٹھائیں اور اپنے آپ کو مارے جانے دیںیہ کیسے ہوسکتا تھا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے آدمی جو تھے قعقاع اُن کا اسم گرامی ہے اُن سے کہا، اُنہوں نے کہا کہ اِس کا علاج ہے زنجیریں، یعنی پکڑنا تو چاہیے، سزا تو دی جائے اُن کو مگر پکڑے کیسے جائیں۔ بہت اچھی تدبیر : اُنہوں نے کہا کہ اِس کا علاج یہ ہے آپ لوگ سب سکون سے ہوجائیں، جب آپ سکون سے ہوں گے تو پھر اِس سرغنہ کو بلائیںتو وہ کچھ نہ کچھ کرنا چاہیں گے، جب وہ کرنا چاہیں گے تو جو اُٹھے اُس کو پکڑتے جائیں آپ، اُنہوں نے سمجھ لیا اور اتفاق کیا لیکن وہ خباثت تھی خبیث لوگوں کی جنہوں نے رات کے اندھیرے میں لڑائی چھیڑدی تو بلاوجہ ایک لڑائی بن گئی'' جَمل'' کی، اِدھر سے بھی اُدھر سے بھی۔ اور پھر یہ بدگمانی جب ہوتی ہے تو پھر بدگمانی میں یہی ہوتا ہے کہ خفگی پیدا ہوگئی۔ حضرت زبیر نے رجوع کرلیا : لیکن حضرتِ زبیر رضی اللہ عنہ سے گفتگو ہوئی تو وہ (رجوع کرتے ہوئے) واپس چلے گئے۔ مروان نے حضرت طلحہ کو شہید کردیا : حضرتِ طلحہ رضی اللہ عنہ کو مروان نے ہی تیر مارا تھا کیونکہ حضرتِ طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت تک بالکل کام نہیں کیا اور منع کردیا کہ میں نہیں کام کرتا تو مروان کو یہ شُبہ تھا کہ یہ بھی (حضرت عثمان کے قتل کی سازش میں) شامل ہیں، کیونکہ جو گروپ آئے تھے باہر سے تو کوئی نام لیتا تھا کہ