ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنائیں گے، کوئی کہتا تھا حضرتِ زبیر کو بنائیں گے، کوئی کہتا تھا حضرتِ طلحہ کو بنائیں گے۔ تو اِسے شُبہ یہ تھا کہ یہ بھی اُس وقت ملے ہوئے تھے اور اَب جو آئے ہیں یہ تو صحیح رنج اِنہیں نہیں ہے یعنی اُس کو بدگمانی تھی ایک ایسے صحابی سے کہ جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور یہ مروان خود صحابی بھی نہیں ہے بس تابعی ہے۔ تو اِس نے اُن کے تیر مارا حالانکہ وہ بھی حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تھے اور یہ بھی حضرتِ عائشہ رضی اللہ عنہا وعنہ کے لشکر میں تھا، تو اِس نے تیر مارا وہ گھٹنے پر لگا، لگا شہ رگ میں، اُس سے خون زیادہ ضائع ہوا، خون ضائع ہوگیا اور شہادت ہوگئی۔ وفات کے وقت حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت : وفات سے پہلے اِنہوں نے ایک شخص کو گزرتے ہوئے دیکھا، اُس سے پوچھا تم کس جگہ سے تعلق رکھتے ہو؟ اُس نے کہا حضرتِ علی رضی اللہ عنہ سے۔ اُنہوں نے کہا اِدھر ہاتھ لائو میں اُن کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں، یہ اِنہوں نے فرمایا اور اُس کے بعد اِن کی وفات ہوگئی۔ حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کو دونوں کی اطلاع ملی حضرتِ زبیر کی شہادت کی بھی کہ اُنہیں فسادیوں نے جب معرکے سے واپس روانہ ہوگئے مدینہ کی طرف تو راستے میں شہید کردیا وادیٔ سباع ہے غالبًا اُس کا نام۔ خارجی نے نماز کی حالت میں شہید کیا : وہاں اُنہیں شہید کیا گیا دھوکہ دے کر۔ نماز پڑھنے لگے، حضرت زبیر کو شُبہ ہوا کہ یہ جو میرے ساتھ ساتھ آدمی ہے یہ مجھ پر حملہ کرے گا نماز میں، اُس سے کہا میں نماز پڑھ لوں؟ تُو پڑھتا ہے تو میری طرف سے اطمینان سے پڑھ لے، میں پڑھوں گا تو تیری طرف سے اَمن ہونا چاہیے ۔اُس نے کہا بالکل پڑھیں نماز۔ اور یہ سجدے میں گئے تو حملہ کیا اور شہید کردیا۔ تو اِس طرح دھوکے سے شہید کیے گئے۔ حضرتِ علی کو جب اطلاع ملی تو اُنہوں نے فرمایا کہ اِن کے قاتل کو جہنم کی خوشخبری دے دو، یہ رسول اللہ ۖ نے فرمایاتھا۔ تو اطلاعات تو تھیں اِس طرح کی۔ حضرتِ علی رضی اللہ عنہ جب روانہ ہوئے ہیں مدینہ منورہ سے تو پھر ایک صحابی عبد اللہ بن سلام یہ پہلے یہودی تھے پھر مسلمان ہوئے تھے، یہودی عالم بھی تھے، مسلمان عالم بھی تھے۔ ان کے بارے میں حضرتِ معاذ ابن ِ جبل فرماتے ہیں کہ وہ جنت میں جائیں گے میں نے یہ سُنا ہے رسول اللہ ۖ سے کہ وہ اِن کے