ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
حرف ٓغاز نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد ! ربیع الاوّل کے پہلے ہفتہ ایبٹ آباد کا ایک طالب علم میرے پاس آیا جو غالبًا جامعہ مدنیہ جدید میں بھی پڑھتا رہا ہے اور دو برس پہلے فارغ التحصیل ہوچکا ہے، میرا بھی شاگرد ہے۔ اپنے معاملات میں مشاورت بھی کرتا رہتا ہے ۔اِس بار اُس نے اپنی شادی کے معاملہ میں مجھ سے مشاورت کی اور کہا کہ میرے بھائی جوکہ عام کاروباری یا ملازمت پیشہ ہیں کسی مدرسہ کے پڑھے ہوئے بھی نہیں ہیں ،یہ پرزُور خواہش رکھتے ہیں کہ میری شادی کسی مدرسہ کی پڑھی ہوئی عالمہ فاضلہ سے کرادیں اور مدرسہ کی فاضلات سے کمال درجہ حسن ظن کی بناء پر اُن کا مجھ پر خاصا دبائو ہے مگر میں نے اُن کو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ میں ہرگز مدرسہ کی پڑھی ہوئی لڑکی سے شادی نہ کروں گا اِس لیے کہ وہ نافرمانی کرے گی اور صبح دس بجے تک پڑی سوتی رہے گی۔ دینی مدرسہ کے فاضل کی جانب سے دینی مدرسہ ہی کی فاضلہ سے اِس درجہ بے زاری حیرت کا باعث ہونے کے باوجود میرے لیے باعث ِ حیرت نہ تھی اِسلیے کہ ملک میں جب سے لڑکیوں کی تعلیم کے دینی مدارس قائم ہوئے اور اُن میں اُن کو مکمل درسِ نظامی پڑھاکر فاضلات کی سندوں سے نوازا جانے لگا ،تب سے اُن کے گھریلو روّیوں کے بارے میں عام طور سے افسوسناک باتیں سننے میں آنے لگیں۔ کام چوری،بے ڈھنگا پن، بڑوں حتّٰی کہ والدین کی نافرمانی ،شوہروں سے مقابلہ اور منہ زوری عام طور پر اُن میں پائی جاتی ہے۔