ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
ذرا ٹھہرکر پڑھ لو اور وقت میں گنجائش ہے تو مؤخر کردینا چاہیے۔ ہاں اگر وقت مکروہ ہونے لگے تو اُس وقت اُس کا کہنا نہ مانے۔ البتہ اگر وہ صریح کفر و شرک کا اِرتکاب کرے اُس وقت کسی محقق عالم سے فتویٰ لے کر اُس سے جدا ہوجائے۔ باقی فسق تک جبکہ وہ تم کو فسق کا حکم نہ کرے اُس کی اطاعت کرو یہاں تک کہ اگر وہ یہ کہے کہ وظیفہ چھوڑکر میری خدمت کرو تو وظیفہ (تسبیحات) چھوڑدو ۔مگر تم تو سمجھتی ہوگی کہ اِس سے بزرگی میں فرق آجائے گا۔ اے عورتو! تم کو بزرگ بننا بھی نہ آیا۔ بزرگی تو شریعت کی اتباع کا نام ہے، رائے کی اتباع کو بزرگی نہیں کہتے۔ جب تم کو خاوند کی اطاعت کا شریعت نے حکم دیا ہے تو بس بزرگی اِسی میں ہے کہ اِن کی اطاعت کرو۔ (وعظ الخضوع ملحقہ حقیقت عبادت ص ٣١٦) شوہر کی سفر سے واپسی کے وقت عورتوں کی کوتاہی : عورتوں میں ایک یہ بھی قاعدہ ہے کہ جب مرد سفر سے آئے تو اُس کی لیاقت یہ ہے کہ اِن کے واسطے کچھ سوغات (اِدھر اُدھر کے سامان وغیرہ) ضرور لے کر آئے اور جو رقم دے گیا تھا اُس کا حساب و کتاب کچھ نہ لے۔ اور اگر کوئی مرد حساب لیتا ہو کہ اِتنا دے گیا تھا وہ کہاں خرچ ہوگیا؟ تو اِس پر فتویٰ لگتا ہے کہ یہ مرد بہت بُرا ہے ، ذرا ذرا سی چیز کا حساب لیتا ہے۔ بس اِن کے یہاں سب سے اچھا وہ، جو بالکل زن مرید (بیوی کا مرید) ہو، جو بیوی نے کہا فورًا پورا کردیا اور رقم دے کر کچھ نہ پوچھے کہ تم نے کہاں خرچ کیا اور یہ ساری خرابی مال کی محبت کی بدولت ہے جو عورتوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ (اسباب الغفلة ص ٣٨٤) شوہر کے مال میں تصرف : عورتیں بعض دفعہ خاوند کے مال میں تصرف کرتے ہوئے یہ سمجھتی ہیں کہ وہ اجازت دے دے گا اور بعض دفعہ وہ خاموش بھی ہوجاتا ہے مگر بعض مرتبہ خوب خفا ہوتا ہے اور میاں بیوی میں خوب اچھی طرح تو تو میں میں ہوتی ہے۔ کانپور میں ایک دفعہ کسی بی بی نے مراد آباد کا حقہ ایک مدرسہ کے جلسہ میں عاریةً دے دیا خاوند نے بے حد سختی کی۔ غرض جب تک اجازت صراحةً نہ ہو یا ظن غالب نہ ہو اُس وقت تک عورتوں کو چندہ میں کچھ نہ دینا چاہیے۔ میں نے دیکھا ہے کہ عورتیں چندہ کے بارے میں بہت سخی ہوتی ہے۔ جہاں انہوں نے صدقہ کے