ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
کرنے کی اطلاع ملی تھی تو میں نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ مدینہ شریف کی طرف لوٹ جائیں اور گھر میں بیٹھ رہیں۔ اسی طرح جب حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کرلیا گیا تھا تو میں نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ مدینہ سے باہر چلے جائیں۔ اگر عثمان قتل بھی ہوگئے تو بہرحال آپ کی موجودگی میں نہ ہوں گے مگر آپ نے کسی بھی معاملہ میں میرا مشورہ قبول نہ کیا۔'' حضرت علی نے جواب دیا : یہ کہ میں ہر جانب کے لوگوں کی اِطاعت کا انتظار کرتا تو یہ جان لو کہ بیعت (انتخاب خلیفہ) کا حق اُنہی مہاجرین و انصار کو حاصل ہوتاہے جو حرمین میں موجود ہوں۔ جب وہ لوگ اظہار رضامندی کرچکیں اور سلام (خلافت) کہہ دیں تو باقی لوگوں پر اطاعت و تسلیم فرض ہوجاتی ہے۔ رہا میرا گھر کو لوٹنا اور جاکے بیٹھ رہنا تو جان لو کہ یہ اُمت کے ساتھ غداری ہوتی پھر یہ کہ ایسا کرنے سے مجھے یہ اطمینان کیونکر حاصل ہوسکتا تھا کہ فتنہ سر نہ اُٹھائے گا اور اِس اُمت کا اتحاد پارہ پارہ نہ ہوجائے گا۔ رہا یہ کہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کے محصور ہوجانے کے وقت مدینہ سے نکل جاتا تو یہ میرے بس میں کب تھا۔ لوگوں نے مجھے بھی تو اِسی طرح گھیر رکھا تھا جس طرح عثمان کو۔ لہٰذا بیٹا جان جس معاملہ کو میں تم سے بہتر جانتا ہوں تم اُس میں دخل نہ دو۔ (الاخبار الطوال ص ٢٧٩ ، ٢٨٠) یہ وہ کتاب ہے جس کے حوالے عباسی صاحب دیتے ہیں۔ مگر وہ صرف حضرت حسن کی باتیں لکھتے ہیں اِن(حضرت علی) کا جواب نہیں لکھتے کیونکہ اُن کی رگ ِخارجیت کہتی ہے کہ حضرت علی پر اعتراض تو ہو اُس کا جواب نہ ہو۔ مذکورہ بالا مضمون الکامل میں بھی ہے۔ ( الکامل ج ٣ ص ٢٢٢) عباسی صاحب نے دُوسری بات یہ لکھی ہے کہ ''سب سے پہلے بیعت کرنے والا اَشتر تھا''۔ انہوں نے بیعت خلافت ِعلی کو کمزور اور بدنما ظاہر کرنے کے لیے یہی کمزور روایت جابجا نقل کی ہے، قوی روایات