ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
بدزبانی و زبان درازی کا مرض : عورتوں میں قوت ِبیانیہ اور قوت ِاستدلال نہیں ہوتی۔ مرد کے ساتھ جب اِن کی گفتگو ہوتی ہے وہ بے چارہ اِس سے رنج ہی اُٹھاتا ہے۔ وہ تو مناظرہ رشیدیہ کے قانون سے گفتگو کرتا ہے اور یہ اُلٹی سیدھی ہانکے چلی جاتی ہیں۔ بس زبان چلائے جائیں گی خواہ ایک بات بھی موقع کی نہ ہو۔ مرد بے چارہ اِن کی زبان زوری دیکھ کر خاموش ہوجاتا ہے مگر یہ کبھی خاموش نہیں ہوتیں۔ آخر یہ مناظرہ میں اِس پر غالب آجاتی ہیں۔ اگر محض بولنے بک بک کرنے کا نام مناظرہ ہے تو گدھا بڑا مناظر ہے۔ ہماری عورتوں میں ایک تھوڑی سی کسر ہے اگر وہ مٹ جائے تو یہ سچ مچ کی حوریں بن جائیں گی۔ وہ کسر کیا ہے؟ کہ اِن کی زبان نہایت خراب ہے۔ اِن کی زبان وہ اثر رکھتی ہے جیسے بچھو کا ڈنک ،ذراسی حرکت میں آدمی بِلبلا جاتا ہے۔ ایک بزرگ نے اِس کا خوب علاج کیا تھا۔ اُن سے ایک عورت نے شکایت کی کہ خاوند سے روز لڑائی رہتی ہے کوئی تعویذ ایسا دے دیجئے کہ لڑائی نہ ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک بوتل میں پانی لے آئو میں پڑھ دُوں گا اِس سے لڑائی نہ ہوگی۔ وہ بوتل میں پانی لائی۔ اُنہوں نے اِس پر کچھ جھوٹ موٹ پڑھ دیا اور فرمایا کہ جب شوہر گھر میں آیا کرے تو اِس پانی کا ایک گھونٹ منہ میں لے کر بیٹھ جایا کرو پھر لڑائی نہ ہوگی۔ اُس نے ایسا ہی کیا، واقعی لڑائی ختم ہوگئی۔ پانی کا دَم کرنا تو نام کے واسطے تھا، اصل تدبیر یہ تھی کہ جب پانی منہ میں لے کر بیٹھ جائے گی تو زبان قینچی کی طرح نہ چلے گی۔ اور لڑائی ہوتی تھی اِس کی بدزبانی سے، اس لیے اُن بزرگ نے اِس کے بند کرنے کی یہ حکیمانہ تدبیر کی۔ اَب بھی عورتیں اگر کسی طرح منہ بند کرلیں تو واقعی کبھی لڑائی نہ ہو۔ لوگ آج کل اِس کے لیے تعویذ وغیرہ مانگتے پھرتے ہیں۔ سب واہیات (خرافات) ہیں۔ ہاں اگر کوئی یہ عمل کرائے جو اِن بزرگ نے کیا تھا تو اُس کو تو میں بھی کردُوں گا کہ بوتل میں پانی لائے اور جھوٹ موٹ پڑھ دُوں گا اور جب میاں بیوی کی لڑائی شروع ہو بیوی پانی کا ایک گھونٹ منہ میں لے کر بیٹھ جائے۔ اُن بزرگ کی تو چھو میں بھی کچھ اثر ہوگا یہاں چھو میں تو کچھ اثر ہے نہیں مگر یہ وعدہ کرتا ہوں کہ لڑائی بند ہو جائے گی۔ خدا جانتا ہے یہ بے مثل علاج ہے، یہ تو حکمت ِ عملی تھی۔ اور دَراصل بات یہی ہے کہ عورتوں کی بدزبانی بگاڑ کی جڑ ہے۔ یہ عیب عورتوں سے نکل جائے تو یہ سچ مچ حوریں بن جائیں۔ (التبلیغ ص ٧ /٦٨، وعظ کساء النسائ)