ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
پھر میں نے حضور سرورِ عالم ۖ کو خواب میں دیکھا تو آپ ۖ نے فرمایا کہ اے حسن تمہارا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا ،اچھا حال ہے اے باباجان ۔اور میں نے شکایت کی آپ سے مال کے آنے میں دیر ہونے کی، سو فرمایا کیا تم نے دوات منگائی تھی تاکہ اپنی مثل مخلوق کو اپنا حال لکھو اور اپنی ذات (کا حال) یاد دلائو۔ میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ ۖ (اور اِس امر کی راے مبارک چونکہ نہیں ہے تو) پھر میں اور کیا (تدبیر) کروں (یعنی تنگی سخت ہے کوئی رہائی کی صورت تعلیم کیجیے) آپ نے یہ دُعاء تعلیم فرمائی اور کہا کہ کہو (اِس دُعاء پر لکیر کھینچ دی ہے جب پڑھے عربی میں پڑھے ترجمہ یہ ہے) اے اللہ ڈال دے میرے دل میں اپنی اُمید اور قطع کردے میری اُمید اپنے غیر سے یہاں تک کہ میں تیرے غیر سے اُمید نہ رکھوں اے اللہ، اور وہ چیز کہ اُس کے حاصل کرنے سے ضعیف ہو میری قوت اور کوتاہی کرے اُس سے میرا عمل اور نہ پہنچے اُس تک میری رغبت اور نہ پہنچے اُس پر میرا سوال (تجھ سے) اور نہ جاری ہو میری زبان پر اُس چیز سے کہ دیا تونے کسی کو پہلوں اور پچھلوں سے (اور وہ) یقین (ہے عطا روزی و جمیع آرزئوں کا) تو مجھ سے خاص کردے اُس یقین کے ساتھ اے پروردگار تمام جہانوں کے۔ فرمایا حضرت حسن نے کہ خدا کی قسم میں اِس کو پورا ایک ہفتہ کثرت سے نہ پڑھنے پایا کہ امیر معاویہ نے پندرہ لاکھ بھیجے ۔سو میں نے کہا کہ حق تعریف اُس اللہ کو ہے جو نہیں چھوڑتا اُسے جو اُس کو یاد کرے اور نہیں گھاٹے میں رہتا وہ جو اُس سے دُعاء کرے۔ پھر میں نے حضور ۖ کو خواب میں دیکھا پس آپ ۖ نے فرمایا اے حسن کیا حال ہے تمہارا؟ میں نے عرض کیا اچھا حال ہے یارسول اللہ ۖ اور میں نے اپنا قصہ بیان کیا۔ آپ ۖ نے فرمایا اے میرے پیارے بیٹے ایسا ہی ہوتا ہے جو خالق سے اُمید رکھے اور مخلوق سے نا اُمیدی رکھے''۔ واضح ہو کہ یہ فضل ہے اولاد فاطمہ کا کہ حق تعالیٰ اور رسول کریم ۖ نے اُن کا ذرا سا بھی دینی نقصان گوارا نہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے پھر تنگی بھی رفع کردی ۔یہ تعلیم نبوی ۖ تھی اہل بیت کو، جب تو اُن کو