ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
نہیں۔ پھر یہ لوگ حضرت عبد اللہ بن عمر کے پاس گئے، کہنے لگے آپ حضرت عمر کے صاحبزادے ہیں، آپ کارِ خلافت سنبھال لیجئے۔ اُنہوں نے کہا معاملہ ایسا بن گیا ہے کہ اس پر (ردعمل) انتقام (کی صورت میں) ہوگا۔ خدا کی قسم میں سامنے نہیں آئوں گا۔ میرے سوا اور آدمی ڈھونڈو۔ (حاشیہ العواصم ص ١٤٢) یہی مضمون تاریخ ابن خلدون میں ہے جسے عباسی صاحب نے (حقیقت خلافت و ملوکیت ص ٩٨) محقق مؤرخ قرار دیا ہے۔ اور خود قاضی ابوبکر بن العربی یہ لکھتے ہیں : فَلَمَّا قَضٰی اللّٰہُ مِنْ أَمْرِہ مَا قَضٰی، وَمَضٰی فِیْ قَدْرِہ مَا مَضٰی، عُلِمَ أَنَّ الْحَقَّ لَایُتْرَکُ النَّاسُ سُدًی، وَأَنَّ الْخَلْقَ بَعْدَہ مُفْتَقِرُوْنَ اِلٰی خَلِیْفَةٍ مَفْرُوْض عَلَیْہِمُ النَّظْرُ فِیْہِ۔ وَلَمْ یَکُنْ بَعْدَ الثَّلاثَةِ کَالرَّابِعِ قَدْرًا وَعِلْمًا وَتُقًی وَدِیْنًا، فَانْعقدَتْ لَہُ الْبَیْعَة ۔ وَلَوْلَا الْاِسْرَاعُ بِعَقْدِ الْبَیْعَةِ لِعَلِیٍّ لَجَرٰی عَلٰی مَنْ بِہَا مِنَ الْاَوْبَاشِ مَا لَایُرْقَعُ خَرْقُہ ۔ وَلٰکِنْ عَزَمَ عَلَیْہِ الْمُہَاجِرُوْنَ وَالْاَنْصَارُ ، وَرَأٰی ذٰلِکَ فَرْضًا عَلَیْہِ ، فَانْقَادَ اِلَیْہِ ۔ (العواصم من القواصم ص ١٤٢) اللہ تعالیٰ نے جو کچھ مقدر فرمارکھا تھا جب وہ سامنے آگیا، اُس کی تقدیر گزرکر رہی تو یہ بات (سامنے آئی اور) تسلیم کی گئی کہ حق یہ ہے کہ لوگوں کو بے سِرا نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اور مخلوقِ خدا اُن( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ) کے بعد خلیفہ کی محتاج ہے اُسے غور و فکر کے بعد مقرر کرنا لوگوں پر فرض ہے۔ اور تینوں خلفاء راشدین کے بعد چوتھے خلیفہ (علی) کی طرح مرتبہ، علم، تقوٰی اور دین میں کوئی اور نہ تھا اس لیے اِن کے ہی ہاتھ پر بیعت کی گئی۔ اور اگر حضرت علی سے عقدِ بیعت میں جلدی نہ کی جاتی تو مدینہ شریف میں جو اَوباش لوگ آگئے وہ وہاں وہ تخریبی کارروائی کرتے جسے پیوند نہ لگایا جاسکتا۔ لیکن حضرت علی پر مہاجرین و اَنصار نے شدید اِصرار کیا ،اس لیے انہوں نے بات مان لی ۔