ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
ہیں وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی سب کے ساتھ اللہ نے وعدہ فرمایا ہے کہ اچھائی کی جائے گی، اچھا سلوک کیا جائے گا۔ مگردرجہ بندی قرآنِ پاک میں آئی ہے، تو جو شروع سے مسلمان چلے آرہے ہوں عشرہ مبشرہ میں بھی ہوں اور نبی علیہ السلام کے ساتھ زندگی ساری گزری ہوعلمیت میں بہت بلند ہوں، اُن کے فتوئوں اور فیصلوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی رکھا ہو اور اُن کے فتوئوں کی اورفیصلوں کی تصدیق فرمائی ہو تو اُن کا درجہ تو بہت بلند ہوا لیکن ذہن میں یہ چیزیں آگئیں ایسی پُرپیج ،تو فتنہ جو ہے ایسی چیز ہے کہ اِس میں آدمی پریشان ہوجاتا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے پوچھا بھی کہ فتنوں کے وقت ہم کس کے ساتھ رہیں؟ تو آپ نے اِشارہ فرمادیا مثلاً اِن کے ساتھ رہنا اور وہ کون تھے؟ وہ اُن صحابی نے جاکر دیکھا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ اہل ِ بدر بھی حضرت علی کی طرف تھے : اِسی طرح سے اَب اہل ِبدر جتنے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور اُس وقت اُن سے بڑھ کر سوائے عشرہ مبشرہ کے باقی اور درجہ کسی کا ہوتا ہی نہیں، عشرہ مبشرہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ خود تھے اوراہل ِ بدر اُن کے ساتھ تھے، اُدھر حضرت معاویہ کے سامنے کچھ چیزیں ایسی تو تھیں موجود، لیکن پھر بھی فتنے کا دَور جو ہوتا ہے اُس میں پتا ہی نہیں چلتا، سمجھ کام نہیں کرتی صحیح، یعنی سمجھ پر بھی ایک ایسا دُھواں چھاجاتا ہے کہ انسان صحیح اَنداز نہیں کرسکتا اُس وقت، بعد میں البتہ پتا چلتا ہے۔ حضرت علی کے فرامین ہمیشہ کے لیے باغیوں کے قوانین بن گئے : بعد میں سب نے اِسی بات کو مانا جو اُنہوں نے کہی ۔ کوئی آدمی مجروح ہوجائے تو اُس کو اور نہ مارو بلکہ اُسے اُٹھالو، مرہم پٹی کرو۔ اِسی طرح اُنہوں نے فرمایا جو ہتھیار پھینک دے اُسے بھی چھوڑدو، جو گھر میں رہے دروازہ بند کررکھا ہے وہاں مت جائو چھوڑدو، حضرت علی کے یہ قوانین قاعدہ بن گئے باغیوں کے بارے میں۔ عورتیں تمہیں بُرا بھلا کہیں بُرا نہ مانو کیونکہ اُن کے لوگ شہید ہوئے ہیں۔ وہ روئیں گی بھی، چیخیں گی بھی، چلاّئیں گی بھی، بُرا بھی کہیں گی، تم کچھ نہ کہو وغیرہ وغیرہ۔ ایسے تمام مسائل جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تھے وہ سب لیے گئے ہیں، مگر یہ بعد میں ہوا۔ (با قی صفحہ ٣٤)