ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2007 |
اكستان |
|
اَللَّطَائِفُ الْاَحْمَدِےَّہ فِی الْمَنَاقِبِ الْفَاطِمِےَّہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب ( حضرت علامہ سےّد احمد حسن سنبھلی چشتی رحمة اللہ علیہ ) تحقیق اِس بات کی کہ جس عورت کے دُنیا میں کئی نکاح ہوئے وہ جنت میں کس خاوند کو ملے گی : (٥٢) اَیُّمَا امْرَأَةٍ تُوُفِّیَ عَنْہَا زَوْجُھَا فَتَزَوَّجَتْ بَعْدَہ فَھِیَ لِاٰخِرِ اَزْوَاجِھَا (رواہُ الطبرانی عن ابی الدرداء وصححہ السیوطی فی الجامع الصغیر) ''جو عورت کہ خاوند اُس کا مرجائے (اور وہ دُوسرا نکاح کرلے) سو وہ (جنت میں) اخیر خاوند کو ملے گی۔'' طبرانی نے اِس کو صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ (٥٣) اَلْمَرْأَةُ لِاٰخِرِ اَزْوَاجِھَا۔ (رواہ الخطیب عن عائشة وضعفہ السیوطی) عورت (جنت میں) اخیر خاوند کو ملے گی (یہ حدیث حضرت عائشہ سے مروی ہے اور خطیب نے اِس کو ضعیف سند سے روایت کیا ہے۔ یہ حدیثیں یہاں اِس غرض سے لائی گئیں کہ حضرت فاطمہ پر اللہ نے یہ رحمت کی کہ پہلے ہی خاوند جناب سیدنا علی کے نکاح میں وفات فرماگئیں اور یہ بڑا کمال (مگر غیر اختیاری) ہے اِس لیے گو بیوہ کو نکاح کرنا بعض صورتوں میں واجب اور بعض صورتوں میں بہتر ہے مگر جو عورت اعلیٰ درجے کی حیا دار اور احکام ِشرعیہ کی پوری پابند ہوتی ہے اُس کو اِس اَمر کا کہ دُوسرے خاوند سے نکاح ہو بڑا رنج ہوتا ہے اور یہ امر طبعی اور ظاہر ہے اور حضور ۖ کی ازواج ِمطہرات کا نکاح آپ کے بعد اَوروں کے ساتھ اِسی وجہ سے حرام کردیا گیا کہ جناب رسول مقبول ۖ کو اِس اَمر سے رنج ہوگا۔ پس اگر کوئی بیوہ عورت محض اِس حیا اور پہلے خاوند کی محبت کی وجہ سے اور اُس سے جنت میں ملنے کے شوق میں بشرطیکہ کوئی شرعی مجبوری نہ ہو دُوسرا نکاح نہ کرے تو مضائقہ نہیں کہ کمالِ حیاء وکمالِ ایمان کی دلیل ہے مگر دُوسرے نکاح کو بُرا نہ سمجھے۔