ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( نکاح کابیان ) کفو یعنی میل اور جوڑ ہونے کا بیان : شرع میں اِس بات کا بڑا خیال کیا گیا ہے کہ غیر کفو اور بے جوڑ نکاح نہ کیا جائے یعنی لڑکی کا نکاح کسی ایسے مرد سے نہ کیا جائے جو اُس کے برابر درجہ کا اور اُس کے جوڑ کا نہ ہو۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرہ میں ایک قدرتی اور غیر اختیاری تقسیم قائم ہے۔ کوئی اچھے اخلاق کا ہے تو کوئی برے اخلاق کا حامل ہے۔ کوئی تہذیب اور شرافت و مروت کو کمال سمجھتا ہے تو کوئی اِس کو خاطر میں نہیں لاتا۔ کوئی دینداری کو خوبی سمجھتا ہے تو کوئی اِس کا کچھ خیال نہیں کرتا۔ کسی کا رَہن سہن اور عادات و اطوار ایک طرح کے ہیں تو کسی نے دوسرے اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کوئی بعض پیشوں کو کمتر خیال کرکے اُن کو چھوڑتا ہے اور محنت ِشاقہ اختیار کرکے اعلیٰ قسم کے پیشوں کو اختیار کرتا ہے تو کوئی کمتر پیشوں پر ہی قناعت کرلیتا ہے۔ اب ایک خیال اور طرز والے چاہے دوسرے کو حقیر نہ سمجھیں لیکن اُن کے لیے اپنے سے متضاد مزاج اور طرز رکھنے والے ہر شخص کو اپنے میں ضم کرنا بہت ہی دُشوار ہوگا اور چونکہ لڑکی کی حیثیت شوہر کے محکوم کی ہوتی ہے اس لیے اصل مسئلہ لڑکی اور اُس کے خاندان کا ہوتا ہے کیونکہ نکاح کے بعد چھٹکارا حاصل کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے اس لیے لڑکی اور اُس کے اولیاء کا حق ہے کہ لڑکی کا نکاح کفو میں اور جوڑ میں ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نقل کرتی ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا تَخَیَّرُوْا لِنُطَفِکُمْ وَانْکِحُوْا الْاَکْفَائَ وَاَنْکِحُوْا اِلَیْھِمْ '' اپنے نطفوں کے لیے اچھے رشتے تلاش کرو اور خود بھی جوڑ میں نکاح کرو اور دُوسروں کا نکاح بھی جوڑ میں کرو''۔ اور رسول اللہ ۖ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ثَلاث لَّا تُؤَخَّرُ اَلصَّلٰوةُ اِذَا آنَتْ وَالْجَنَازَةُ اِذَا حَضَرَتْ وَالْاَیِّمُ اِ ذَا وَجَدْ تَ لَھَا کُفْوًا (اعلاء السنن 86ص 11) تین چیزوں میں تاخیر مت کرو، نماز میں جب اُس کا وقت ہوجائے۔ جنازہ میں جب وہ آجائے اور بے نکاحی عورت کے نکاح کرنے میں جب تم اُس کا جوڑ پالو۔