ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
کہا جائے تو اُس میں سے ہے بس یوں کہا جائے گا کہ اُن کی بدنصیبی ہے کہ اُن کی عقل پر پردہ پڑگیا ایک واضح چیز کا بھی انکار کردیا۔ بعض الفاظ کی تشریح : (امام بخاری آگے) فرماتے ہیں کہ مجاہد رحمة اللہ علیہ نے فرمایاکہ اَلْقُسْطَاسْ یا اَلْقِسْطَاسُ اَلْعَدْلُ بِالرُّوْمِیَّةِ۔'' قُسْطَاسْ'' رُومی زبان میں عدل کو کہتے ہیں، انصاف کو کہتے ہیں، رومی زبان کا لفظ ہے۔ وَیُقَالُ اَلْقِسْطُ مَصْدَرُ الْمْقْسِطِ اور کہا جاتا ہے کہ قِسْطْ یہ مُقْسِطْ کا مصدر ہے تو قِسْطْ مجرد کا مصدر ہے اور مُقْسِطْ جو ہے وہ اسم فاعل ہے باب افعال مزید فیہ ہے۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اَلْقِسْطْ یہ مُقْسِطْ کا مصدر ہے حالانکہ مُقْسِطْ کا مصدر تو باب افعال سے آئے گا اِقْسَاطْ تو یہ مُصطلاح مصدر مراد نہیں ہے بلکہ مصدر المصدر کو بھی امام بخاری مصدر قرار دے رہے ہیں۔ مأخذ المأخذ کو بھی مصدر قرار دے رہے ہیں۔ یہ اس معنی میں مصدر ہے۔ فرماتے ہیں وَھُوَ الْعَادِلُ اس کا مطلب عادل ہے (یعنی) مُقْسِطْ کا۔ وَاَمَّا الْقَاسِطُ لیکن اگر اسی سے یہ آئے قَاسِطْ اسم صفت صیغہ اسم فاعل کا تو فَھُوَ الْجَائِرُ تو یہ ظالم کے معنی میں ہوگا ظلم کے معنی میں ہوگا۔ وَاَمَّا الْقَاسِطُوْنَ فَکَانُوْا لِجَھَنَّمَ حَطَبًاO قرآن پاک میں اس معنی میں آرہا ہے۔ تو اصل میں یہ جو قسط ہے یہ عدل کے معنی میں بھی آتا ہے، ظلم کے معنی میں بھی آتا ہے، لیکن عرف میں یہ ہوگیا کہ یہ جب مجرد سے آئے گا تو ظلم کے معنی میں آئے گا اور اگر باب افعال میں لے آئیں گے تو یہ عدل کے معنی میں آئے گا۔ امام بخاری .... سند اور تقلید : آگے امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے حدیث شریف نقل کی ہے اُس میں سب سے پہلے اپنے اُستاد احمد کا ذکر فرمایا۔(یعنی)آگے جو میں بات لارہا ہوں وہ میں نے اِن سے سنی ہے۔ میں اپنے پاس سے نہیں کہہ رہا ان واسطوں سے مجھے پہنچی ہے۔ اسے کہتے ہیں سند۔ استیناد۔ جتنی آپ نے اب تک بخاری شریف شروع سے اخیر تک پڑھی ہے ہر حدیث کے ساتھ سند آگئی۔ مطلب کیا ہوا کہ ہر حدیث کے ساتھ تقلید آگئی۔ ہر حدیث میں امام بخاری رحمة اللہ علیہ عدم تقلید کا رَد کررہے ہیں اور تقلید کا اِثبات ہورہا ہے۔ لَوْلَا الْاِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَائَ مَا شَائَ اگر اسناد نہ ہوتا سند نہ ہوتی تو جس کا جو جی چاہا کرتا کہا کرتا۔ تو یہاں