ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
کہ وہ اپنے مالکوں کے پاس واپس آکر اُن کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہ دیدے۔ دوسری وہ عورت جس سے اُس کا خاوند ناراض ہو، تیسرا نشہ کرنے والا جب تک کہ ہوش میں نہ آجائے۔ ف : اِس قسم کی بعض احادیث پیچھے گزر چکی ہیں،وہاں اُن کی جو تشریح کی گئی ہے اُسے ملاحظہ کر لیا جائے۔ تین چیزیں جو ہنسی مذاق میں بھی واقع ہوجاتی ہیں : عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : '' ثَلٰث جِدُّھُنَّ جِدّ وَھَزْلُھُنَّ جِدّ اَلنِّکَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ '' (ترمذی ابوداود بحوالہ مشکٰوة ص ٢٨٤) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ۖ نے فرمایا : تین چیزیں ایسی ہیں جن کا قصد کرنا بھی قصد ہے اور ہنسی مذاق میں منہ سے نکالنا بھی قصد ہے (١) نکاح (٢) طلاق (٣) رجعت ف : حدیث پاک میں جو لفظ ''جِدّ'' آیا ہے اُس کے معنی سعی و کوشش کے ہوتے ہیں لیکن یہاں اِس سے مراد یہ ہے کہ جو لفظ جس معنی کے لیے وضع ہوا ہے زبان سے ادا کرتے وقت اُس لفظ کے وہی معنی مراد لینا، مثلاً لفظ ''نَکَحْتُ'' (میں نے نکاح کیا) زبان سے جب ادا کیا جائے تو اِس سے نکاح کرنا ہی مراد لیا جائے یا جب لفظ ''طَلَّقْتُ'' (میں نے طلاق دی) زبان سے ادا کیا جائے تو اِس سے طلاق دینا ہی مراد لیا جائے۔ اور لفظ ''ھَزَلْ'' کے معنی یہ ہیں کہ کوئی لفظ زبان سے ادا تو کیا جائے لیکن اُس کے معنی مراد نہ ہوں اِس تشریح کی روشنی میں حدیث پاک کا مطلب یہ ہوگا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو زبان سے ادا ہوتے ہی وقوع پذیر ہوجاتی ہیں خواہ اُن کے معنی مراد ہوں یا نہ ہوں۔ چنانچہ اگر دو اجنبی مرد و عورت کے درمیان ہنسی ہنسی میں دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول ہوجائے تو نکاح ہوجائے گا اور وہ دونوں میاں بیوی بن جائیں گے۔ یا اگر کوئی ہنسی مذاق میں طلاق دیدے تو طلاق پڑجائے گی اسی طرح اگر طلاق رجعی کے بعد ہنسی ہنسی میں طلاق دینے والا رجوع کرلے تو رجعت ثابت ہوجائے گی۔ ٭٭٭