ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
نے یہاں باندیوں اور نوکروں کو بھی اپنے سے اچھا پایا۔ اِن کے پاس کچھ زیور تھوڑا بہت تھا اور انسپکٹر صاحب کی بیوی کے پاس ایک چھلہ تک نہ تھا۔ بس یہاں سے جاکر اِس نے بھی اپنے میاں کی خوب خبر لی۔ واہ صاحب کی تنخواہ بھی تم سے کم ہے پھر بھی اُن کے گھر والے زیور میں لدے پھدے ہیں اور میں بالکل ننگی ہوں اور اُن کی بیوی اپنے ہاتھ سے ایک کام بھی نہیں کرتی، کئی کئی باندیاں ہیں سارا کام وہی کرتی ہیں اور میں سارا کام اپنے ہاتھ سے کرتی ہوں۔ اب مجھ سے اس طرح نہیں رہا جاتا۔ مجھ کو زیور بناکر دو اور عمدہ لباس بناکر دو اور گھر میں خادمہ نوکر رکھو۔ وہ انسپکٹر صاحب مجھ سے الٰہ آباد میں ملے تھے۔ بیچارے کہتے تھے کہ شیخ کامل (یعنی عورت سے میل جول) کا اثر ایک منٹ میں ایسا ہوا کہ میری ساری عمر کا اثر فوراً ختم ہوگیا۔ اب میرے گھر میں دن رات زیور کی فرمائش رہتی ہے اور کوئی کام خود نہیں کرتی۔ زیور بناتا بناتا تھک گیا ہوں مگر سلسلہ ختم نہیں ہوتا اور میری ساری خیر خیرات بند ہوگئی۔ اس لیے کہتا ہوں کہ اِن کا آپس میں ملنا بڑا غضب ہے۔ دُنیا کے معاملہ میں اپنے سے کمتر کو دیکھو : عورتوں کو بھی چاہیے کہ دُنیا کے بارے میں اپنے سے گھٹیا لوگوں کو دیکھیں۔ مثلاً تمہارا گھر کسی رئیس زادی کے گھر سے کم ہے تو اُن لوگوں پر نظر کرو جن کے گھر تم سے بھی گھٹیا ہیں اور نہایت (چھوٹے اور) تنگ ہیں، پلنگ بچھنے کے بعد چلنے کا بھی راستہ نہیں رہتا۔ وہاں ہوا کا تو کہاں گزر،بارش کا بھی بچائو نہیں اور تم ہوادار صحن میں ایسے آرام سے ہوتی ہو کہ صبح کی نماز بھی قضا ہوجاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے مکانات دیکھ کر تم کو اپنے مکان کی قدر ہوگی کہ اِس میں جھاڑ فانوس وغیرہ نہیں ہیں تو کیا ہوا ،بارش کا بچائو تو ہے، ہوا کا گزر تو ہے۔ شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے پاس جوتا نہ تھا تو میں رنجیدہ تھا کہ اچانک میں نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا کہ جس کے پیر ہی نہ تھے، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میرے پیر تو ہیں، جوتا نہیں تو کیا ہوا۔ تو دُنیا کے باب میں اپنے سے کمتر حیثیت والوں کو دیکھنے سے دل کو بڑی راحت ہوتی ہے۔ مگر اب ایسا مزاج بدلا ہے کہ دُنیا میں جہاں ذرا کمی ہوئی تو اُس کا تو قَلق ہوتا ہے اور اِس پر کبھی نظر نہیں ہوتی کہ اللہ کی بہت سی مخلوق ہم سے بھی ابتر حالت میں ہے۔ ہم اِن سے بہت اچھے ہیں اور دین میں ایسا استغناء برتا جاتا ہے کہ پانچ وقت کی نماز پر اکتفا کرلیا ہے۔ اگر کوئی اِن سے تہجد و اشراق کو کہہ دے تو جواب میں کہتے ہیں کہ کیا ہم مرجائیں بہت تو کام کرتے ہیں کہ پانچ وقت کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔ (الکمال فی الدین)