ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
َالْحَرَامِ یہ حرام اور حلال کو بہت زیادہ جاننے والے ہیں۔ اور ان کو رسول اللہ ۖ نے یہ حق دیا کہ وہ فیصلے دیتے تھے اور فیصلے دینا تو کام ہے اُس کا جس کے اندر بڑی خوبیاں جمع ہوں یعنی وہ اعتدال پر رہتا ہو، غصہ میں آکر زیادتی نہ کر بیٹھے ،ذاتی انتقام نہ لے، ٹھنڈے مزاج کا ہو، عفیف ہو اور بہادری بھی ہو کہ وہ ایک فیصلہ دے سکتا ہو شجاعت جسے کہتے ہیں اور علم اور عمل ہو اُس میں۔ تقریباً یہ آٹھ نو چیزیں ہیں جو قاضی کے اندر ہونی چاہئیں۔ تو رسول اللہ ۖ نے اِن کو خود قاضی بنایا۔ جج کا عہدہ طلب کرنے والے کو یہ عہدہ نہیں دیا جائے گا : کسی نے اگر چاہا کہ میں قاضی ہوجائوں تو اُسے آپ نے منظور نہیں فرمایا۔ خطرہ بھی ثواب بھی : اور یہ بھی فرمایا کہ قاضی ہونے کا عہدہ طلب کرنا گویا یہ بڑی خطرناک بات ہے۔ قاضی ایسے ہے جیسے بس کنارے پر پڑا ہے جہنم کے۔ ذرا سی غلطی کرے گا تو اندر سیدھا جائے گا ،تو یہ کام آسان نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی اِسے اپنے لیے طلب نہ کرے تاوقتیکہ اُس کے ذمہ یہ بوجھ ڈالاجائے پھر وہ اگر کرے گا تو اُس کو ثواب ہوگا۔ اگر اُس نے غلطی سے غلط فیصلہ دے بھی دیا تو بھی ثواب اُس کو ہوگا لیکن کب؟ جبکہ وہ خود مکمل ہو یہ صفات اُس میں کامل درجہ میں پائی جارہی ہوں اور وہ فیصلہ اپنی کوشش سے صحیح دے رہا ہو، پھر ہے یہ۔ رنجیت سنگھی نہیں چلے گی : لیکن اگر جاہل کوئی قاضی ہوگیا اُسے خبر ہی نہیں وہ پوچھتا بھی نہیں تو پھر تو کوئی بات نہ ہوئی ،یہ رنجیت سنگھ کے بارے میں جو مشہور کررکھا ہے کہ اُس کے پاس درخواستیں بہت جمع ہوگئیں تو اُس نے اکٹھی کرکے کہا ایک درخواست اِدھر ڈالتے جائو ایک اُدھر ڈالتے جائو۔ یہ منظور یہ نامنظور ،یہ منظور یہ نامنظور، جلدی سے ساری نمٹ گئیں۔ تو یہ تو کوئی بات نہ ہوئی یہ منظور یہ نامنظور۔ یہ تو اُن لوگوں کا طریقہ ہوسکتا ہے کہ جن کے سامنے آخرت نہ ہو، خدا کے ہاں جانے اور جواب دہ ہونے کا تصور ہی نہیں ہے ایسے لوگ کریں تو کریں، اسلام میں تو یہ بات نہیں ہے۔ تو رسول اللہ ۖ نے پھر اِن کی تعریف فرمائی یہاں اِرشاد ہے نعِْمَ الرَّجُلُ مَعَاذُ بْنُ جَبَل