ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
تقریب ختم ِبخاری شریف ١٨ رجب المرجب ١٤٢٧ھ مطابق ١٤ اگست ٢٠٠٦ء کوجامعہ مدنیہ جدید میں ختم بخاری کے موقع پر ایک پر وقار تقریب منعقد ہوئی۔ جامعہ مدنیہ جدید میں دورہ ٔ حدیث شریف کے آغاز کا یہ پہلا سال تھا، اس پہلی مقدس تقریب ختم ِبخاری شریف میں بہت سے علمائے کرام ،جامعہ کے اساتذہ ، طلباء اور بڑی تعداد میںبیرونی اور مقامی حضرات نے شرکت فرمائی۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب نے بخاری شریف کی آخری حدیث پڑھا کر اُس کی تشریح کی اور آخر میں حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب مدظلہم نے رِقت آمیز دُعاء فرمائی۔ معتزلہ پر رَد : امام بخاری رحمة اللہ علیہ یہاں معتزلہ پربھی رَد کررہے ہیں۔ معتزلہ کون ہیں؟ وہ لوگ جو ہر چیز کو عقل سے جانچنا چاہتے ہیں اگر عقل میں آئے گی تو صحیح ہے نہ آئی تو مسترد کردی۔ اُن کا معیار حق اورناحق یا صحیح اور غلط کا معیار عقل ہے اور کچھ نہیں۔ چنانچہ معتزلہ جو تھے وہ وزنِ اعمال کے قائل نہیں تھے، وہ کہتے تھے کہ اعمال کا وزن نہیں ہوسکتا، کیونکہ اعمال اعراض ہیں، اقوال اعراض ہیں۔ ''اَعراض'' کا مطلب : اَعراض کا مطلب ہے کہ ان کا اپنا وجود خارج میں نہیں ہے۔ آپ کا وجود تو ہے، یہ کتاب کا وجود بھی ہے لیکن یہ کتاب تین کلو کی ہے یا چار کلو کی ہے یہ الگ سے آپ نہیں دکھاسکتے کہ یہ تین کلو پڑے ہیں یہ نہیں دکھاسکتے۔ یہ قائم بذاتہ نہیں ہے چیز، یہ عرض ہے۔ کتاب قائم بذاتہ ہے۔ آپ کا وجود قائم بذاتہ ہے، لیکن آپ کا وزن ایک من ہے یہ قائم بذاتہ نہیں ہے یہ تو آپ سے لگا ہوا ہے جدا ہو ہی نہیں سکتاآپ سے، جب جدا ہی نہیں ہوسکتا تو اُس کا وزن کیسے ہوسکتا ہے۔ آپ کا وزن ہوگیا اُس کا نہیں ہوگا۔ آپ'' جوہر'' ہیں وہ'' عرض'' ہے ۔اس لیے اُنہوں نے وزنِ اعمال کا انکار کردیا۔ اسی طرح اور بہت سی چیزوں کا جو اُن کی عقل میں نہیں آئیں اُن کا انکار کردیا۔