ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
نیا سے رخصت ہوچکے تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا۔ جج کے تحفے یا سرکاری ہدایا : تو اِن کو کچھ وہاں سے عطیات اور ہدایا ملے۔ وہ ایسے نہیں تھے کہ جیسے رشوت ہوتی ہو ، بلکہ جیسے اپنے جان پہچان کے لوگ دے دیں ، اِس طرح کے تھے۔ تو وہ آئے اور اُنہوں نے وہاں سے جو وصولی ہوئی تھی حکومت کے حق میں خراج وغیرہ کی وہ دی اُس کے بعد یہ رقم پیش کی ابوبکر کے پاس اور کہا یہ میرے لیے ہے(معاملہ واضح کر دیا چھپایا نہیں)۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نرمی کی کہ ٹھیک ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے کہا یہ تو اِن کے لیے دُرست نہیں ہے ،تو اِنہوں نے اُن کی بات نہیں مانی، اور دے دیں اُن کووہ چیزیں۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ۖ نے جو مجھے وہاں بھیجا تھا مقصد بھی آپ کا یہی تھا کہ میرے جو قرض وغیرہ ہیں وہ ہٹ جائیں۔ اس طرح سے میں ایک کام پر لگ جائوں۔ تو ایک کام سامنے آیا اُس پر مجھے لگادیا ،میں وہ کام کروں اور قرض سے سبکدوش ہوجائوں، اور یہ آپ لوگوں کو معلوم ہی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے تو اِن کی بات مان لی۔ حضرت عمر کی فراست : لیکن مشیر تھے نا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے وزیر ہوں۔ تو اُنہوں نے یہ عرض کیا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے اس میں حلت نہیں ہے، جواز نہیں ہے۔ حضرت معاذ کا خواب اور خوف ِخدا : اب حضرت معاذ نے خواب میں دیکھا کہ جیسے میں کہیں ڈوب رہا ہوں اور عمرنے مجھے وہاں سے بچالیا۔ تو اُنہوں نے کہا اِس خواب کا مطلب یہ ہے کہ جو حضرت عمر کی رائے ہے وہ ٹھیک ہے۔ چنانچہ وہ مال جو تھا وہ بیت المال میں جمع کروادیا۔ اُس کے بعد پھر حضرت عمر نے ابوبکر سے عرض کیا کہ اب جناب اِن کو یہ دے دیں کیونکہ بیت المال میں اب آگیا۔ اب خلیفہ کو حق ہے کہ وہ جسے مستحق سمجھتا ہے جتنا اُتنا اُسے دے دے۔ تو اب آپ دے دیجئے تو اِس میں کوئی حرج نہیں ہے ،ایک اُصولی بات فرمائی۔ ( باقی صفحہ ٢٥ )