ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
قسط : ٤ ، آخری ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے مقلدین کے بارے میں غیر مقلدین ( نام نہاد اہل ِ حدیثوں)کا نقطہ نظر ( جناب پروفیسر میاں محمد افضل صاحب ) مولانا جونا گڑھی کی ایک کتاب کا نام ''شمع محمدی'' ہے۔ اُس کے صفحہ ١٦٧ پر رقمطراز ہیں : ''اگر تقلید کا کوئی نقصان اِس کے سوا نہ ہوتا کہ انسان حدیث و قرآن پر عمل کرنے کے لیے اِس کے بعد آزاد نہیں رہ سکتا تو یہی نقصان حرمت تقلید کے لیے کافی تھا۔'' اِس عبارت سے بھی مقلدین کے خلاف بغض اور حسد کا اظہار ہوتا ہے۔ حالانکہ تمام مقلدین پہلے قرآن و سنت کے مسائل پر عمل کرتے ہیں، اُس کے بعد صحابہ کرام کا جس بات پر اجماع ہوگیا اُسے بھی دلیلِ شرعی سمجھتے ہیں۔ اُس کے بعد اجتہادی مسائل میں اپنے اپنے امام کی تقلید کرتے ہیں۔ ہاں قرآن و حدیث پر آزادانہ عمل کرنے کی اگر ہر ایک کو اجازت ہو تو دین بازیچۂ اطفال بن جائے گا۔ ایک اَن پڑھ عربی زبان سے ناواقف غیر مقلد اپنی مرضی سے کیسے قرآن و حدیث پر عمل کرسکتا ہے۔ یقینا وہ اپنے کسی عالم سے مسئلہ پوچھے گا، وہ جیسے بتائے گا اُس پر عمل کرے گا۔ پھر آزادانہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے کا دعویٰ ، چہ معنی دارد؟ یہ کہنا کہ مقلدین قرآن و حدیث پر عمل نہیں کرتے یہ صرف غیر مقلدین کاپروپیگنڈا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم مقلدین بحمد اللہ شریعت کی چاروں حجتوں پر بالترتیب عمل کرتے ہیں جبکہ غیر مقلدین قرآن و حدیث کا نام لے کر اپنے مولوی کی یا ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں۔ مولانا جوناگڑھی ''شمع محمدی'' کے صفحہ ٧٠ پر لکھتے ہیں : ''حدیث کے خلاف کسی اور کی بات ماننا پھر اُسے تقلید کہنا جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے، جسے شرک کہا جاتا ہے جس سے بچنا مسلمانوں پر اُتنا ہی فرض ہے جتنا کالی بھوانی کو نہ ماننا''۔ یہاں پر بھی مولانا لفظ ِحدیث کا ذکر کررہے ہیں حالانکہ معمول بِھا سنت رسول ہے نہ حدیث ِرسول ۖ ۔ آپ نے کہیں نہیں فرمایا کہ میری حدیث کی پیروی کرو۔ آپ نے جہاں بھی فرمایا اِتَّبِعُوْا سُنَّتِیْ