ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
فرمالیا اور چاروں اکابر کی رائے ایک ہوگئی۔ ابن اثیر روایت میں لکھتے ہیں : فَرَجَعَ اِلٰی عَلِیٍّ فَاَخْبَرَہ فَاعْجَبَہ ذٰلِکَ (الکامل ج٣ ص ٢٣٤) ''قعقاع حضرت علی کے پاس واپس آئے انہیں باتیں بتلائیں انہیں یہ باتیں پسند آئیں''۔ حضرت علی نے لوگوں کو جمع کرکے خطاب فرمایا جس میں یہ بھی فرمایا کہ میں کل ذی قار سے بصرہ جارہا ہوں میرے ساتھ سب چلیں لیکن ایسا کوئی شخص میرے ساتھ نہ ہو جس نے حضرت عثمان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی کی ہو۔ اور (جوشیلے) کم سمجھ لوگ (میرے ساتھ نہ ہوں) مجھ سے دُور رہیں۔ حضرت علی نے ظاہر ہے یہ اعلان اس لیے فرمایا تھا کہ حضرت عائشہ و طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کے عام ساتھی تک مطمئن ہوجائیں اور سب آپس میں پھر مل جائیں امن و سکون ہو لیکن اس میں اُن لوگوں کی موت تھی لہٰذا اُنہوں نے وہ کچھ کیا جو قیاس سے باہر ہے جس کے نتیجہ میں جنگ ِجمل پیش آئی۔ انہیں حضرت علی سے یا اُن کے قبائل سے الگ کرنا ممکن نہ تھا جیسے کہ حرقوص کو بنی سعد نے باوجودیکہ وہ عثمانی تھے پناہ دی تھی اور خفا ہوکر حضراتِ ثلٰثہ سے الگ ہوگئے تھے۔ جب حضرت علی جنگ ِ جمل کے بعد شام کی طرف روانہ ہوئے تو یہی سوال و جواب حضرت معاویہ سے شروع ہوا۔ (جاری ہے) بقیہ : درس ِ حدیث خلیفہ کا مشیر کی رائے دُرست قرار دینا : تو حضرت ابوبکر نے پھر اسی طرح سے کیا۔ یہاں جناب رسول اللہ ۖ نے حضرت معاذ کی بھی تعریف کی ہے اور ''معاذ بن عمرو بن جموح'' کی بھی تعریف کی ہے۔ یہ عمرو بن جموح جو ہیں یہ اُحد کے میدان میں شہید ہوگئے تھے۔ اُن کے بیٹے ہیں معاذ بن عمروبن جموح ۔ اِن کی بھی رسول اللہ ۖ نے تعریف فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو آخرت میں اِن حضرات کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔ اِختتامی دُعا …… …