ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
ہر راوی بِلا دلیل طلب کیے تقلید کر رہا ہے : اب یہ سب(راوی) کرتے چلے آرہے ہیں،تسلیم ہے ۔ کہیں یہاں یہ بات نہیں آتی کہ امام بخاری نے اپنے اُستاد سے دلیل طلب کی ہو اِس بات کی کہ یہ دلیل دیں مجھے کہ یہ بات آپ نے نبی علیہ السلام سے سنی، بلادلیل کے اس پر اعتماد کیا اور اسے نقل کردیا۔ اُن کے استاد نے بھی ایسے ہی کیا، اُن کے استاد نے بھی ایسے ہی کیا، اُن کے استاد نے بھی ایسے ہی کیا۔ تو یہ تقلید ہے اپنے سے بڑے کی جوکہ ثقہ ہو اور عادل ہو، دیانت دار ہو اُس کی تقلید کرنی پڑے گی ورنہ تو کام ہی نہیں چلے گا۔ تقلید فطرت کا حصہ ہے ،آج کے غیر مقلد بھی تقلید ہی کرتے ہیں : اور ہر آدمی حتی کہ غیر مقلد بھی تقلید کرتے ہیں، کہتے تو یہ ہیں کہ ہم کسی کو نہیں مانتے لیکن تقلید کرتے ہیں۔ اُن کی مسجد میںامام سے جب کوئی مسئلہ پوچھنے آتا ہے تو کبھی آپ نے نہیں سنا ہوگا کہ امام نے اُس مسئلہ پوچھنے والے کے منہ پہ تھپڑ ماردیا اس لیے کہ تو مسئلہ کیوں پوچھنے آیا، تو خود پتا چلا کہ رسول اللہ ۖ کا اس میں کیا حکم ہے بلکہ وہ خود مسئلہ بتاتا ہے کوئی نہ کوئی، تو یہ تقلید ہوگئی۔ تقلید تو ایسی چیز ہے کہ جو انسان کی فطرت کا حصہ ہے دُنیاوی معاملات میں بھی اور دوسرے معاملات میں بھی، تقلید کے بغیر تو چارہ ہی نہیں ہے۔ تو یہ(سند)اِرشاد فرمانے کے بعد فرماتے ہیں کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ یہ ترجمة الباب سے اس جملے کی مناسبت آگئی کہ یہ جو دو کلمے ہیں جو آگے بیان ہورہے ہیں آنے والے ہیں یہ ترازو میں وزنی ہیں تو وزن آگیا اِن کا۔ترازو میں ان کا بہت وزن ہے، اللہ کے ہاں ان کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ تو یہ ترجمة الباب سے اس حدیث کی مناسبت ہورہی ہے۔ اب وہ کیا دو کلمے ہیں فرمایا '' سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ ''۔ اس پر مزیداور تشریح بھی ہے۔ لیکن حضرت شاہ صاحب مدظلہم العالی بہت تھکے ہوئے ہیں اور حضرات بھی مصروف ہیں اس لیے ہم اِسی پر اقتصار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اعمال قبول فرمائے، ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرمائے، ہماری مغفرت فرمائے، وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔