ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
قسط : ٩ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مناقب ( حضرت علامہ سےّد احمد حسن سنبھلی چشتی رحمة اللہ علیہ ) (٣٠) اَخْرَجَ الدَّیْلَمِیُّ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ اَرْبَعَة اَنَالَھُمْ شَفِیْع یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَلْمُکْرِمُ لِذُرِّیَّتِیْ وَالْقَاضِیْ لَھُمْ حَوَائِجَھُمْ وَالسَّاعِیْ لَھُمْ فِیْ اُمُوْرِھِمْ عِنْدَ مَااضْطَرُّوْا اِلَیْہِ وَالْمُحِبُّ لَھُمْ بِقَلْبِہ وَلِسَانِہ ۔ دیلمی نے حضرت علی سے روایت کیا ہے کہ فرمایا رسول مقبول ۖ نے، چار شخص ہیں کہ میں (خاص طور پر) قیامت کے دن اُن کی سفارش کروں گا۔ اوّل وہ شخص جو میری اولاد کی تعظیم کرنے والا ہو۔ دوسرا وہ جو اُن کی حاجتیں پوری کرتا ہو۔ تیسرا وہ جو اُن کے کاموں میں کوشش کرتا ہو جس وقت کہ وہ لوگ اُس شخص کی طرف مضطر ہوں۔ چوتھا وہ کہ اُن سے محبت رکھنے والا ہو اپنے دل اور اپنی زبان سے۔ ف : یہ چاروں شخص حضور سرور عالم ۖ کی اولاد سے حسن برتائو کرنے والے ہیں جو اِس نعمت ِ عظمیٰ شفاعت ِخاصہ سے مشرف ہوں گے۔ پس عاشقانِ رسول اور محبان اولاد بتول کو لازم ہے کہ حضرات اہلِ بیت کرام سے جان و مال سے دریغ نہ کریں گو عام طور پر سب کے ساتھ شریعت نے احسان و سلوک کی ترغیب دلائی ہے اور اُس پر بے حد ثواب کا وعدہ ہے مگر اہل ِبیت اطہار بوجہ قرابت نبوی ۖ اس اَمر کے زیادہ مستحق ہیں اور اُن کی جو کچھ خدمت کی جاوے بڑی تعظیم سے کرنا چاہیے اور اپنے کو یوں سمجھے کہ میں ان کی خدمت کے لائق نہیں اِس لیے کہ وہ واسطہ جو اُن کو رسول اللہ ۖ سے حاصل ہے اُس اعتبار سے تو اُن کی خدمت ممکن ہی نہیں جس کے لیے تمام مخلوق پیدا ہوئی ۔اگر تمام دُنیا اور اہل دُنیا اُس ذات مقدسہ اور اُس کی اولاد طاہرہ پر نثار ہوجائیں تو کچھ بعید نہیں جس کی خاطر اور دلداری خدا تعالیٰ فرماوے ،بندہ کی کیا مجال ہے کہ