ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
بسلسلہ اصلاح خواتین عورتوں کے عیوب اور اَمراض ( از اِفادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ ) حرص اور بے صبری کا مادہ کیسے پیدا ہو جاتا ہے ؟ : عورتوں میں زیور کپڑے کی حرص طبعی طور پر ہوتی ہے لیکن آپس میں ملنے ملانے سے یہ حرص اور بڑھ جاتی ہے۔ ان کا آپس میں ملنا جلنا بڑا غضب ہے۔ ایک دوسری کو دیکھ کر رنگ پکڑتی ہے۔ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے زیور اور کپڑا حیثیت کے موافق دے رکھا ہو تو وہ اُسی وقت تک خوش ہے جب تک برادری بہنوں میں نہ جائے اور جہاں برادری میں نکلنا ہو پھر اُن کی نظر میں اپنا زیور اور کپڑا حقیر معلوم ہونے لگتا ہے۔ دوسروں کا زیور دیکھ کر اِن کا دل للچاتا ہے کہ ہمارے پاس بھی ایسا ہی ہونا چاہیے اور اِسی میں اپنی حیثیت پر اُن کی نظر نہیں جاتی کہ جس کے پاس ہم سے زیادہ زیور ہے اُس کی حیثیت بھی تو ہم سے زیادہ ہے لیکن جس مرد کی آمدنی پچاس روپے ماہوار ہے وہ بھی برابری کرتی ہے اُس کی جس کے مرد کی آمدنی ہزار روپے ماہوار ہے ۔عورتوں پر ملنے جلنے کا بہت جلد اثر ہوتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مستورات کا آپس میں ملنا جلنا بالکل بند کرادو۔ میرا مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو اپنے اس مرض کی اصلاح کرنی چاہیے۔ اگر کسی کا دل دوسروں کے کپڑے زیور دیکھ کر نہ للچائے اُس کو ملنے جلنے کا مضائقہ نہیں، مگر جس پر دوسروں کو دیکھ کر یہ اثر ہو اُس کو ضرور نہ ملنا چاہیے۔ ایک واقعہ : عورتوں پر ملنے جلنے کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ سہارنپور میں ایک انسپکٹر صاحب تھے جن کی تنخواہ چار پانچ سو روپے ماہوار تھی مگر اُس کی یہ عادت تھی کہ ساری تنخواہ اپنے غریب رشتہ داروں پر خرچ کرتے تھے۔ گھر میں کم رکھتے تھے، اُن کی بیوی کے پاس زیور کا ایک چھلہ بھی نہ تھا۔ نہ گھر میں کوئی خادمہ تھی، بیچاری اپنے ہاتھ سے آٹا پیستی تھی اور خود ہی پکاتی تھی اور اِس حالت میں خوش تھی۔ میرے ایک عزیز بھی اُس زمانہ میں سہارنپور میں ملازم تھے اور اُن کا مکان انسپکٹر صاحب کے مکان سے متصل تھا۔ وہ اپنی بیوی کو کسی کے یہاں نہ بھیجتے تھے مگر ایک دفعہ اُن کے عزیز کے گھر والوں کے اصرار پر انہوں نے ملنے کی اجازت دے دی۔ وہ جو یہاں آئی تو اُس