ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
پڑھاتے تھے۔ ایک دن اُنہوں نے بہت لمبی سورت شروع کردی۔ اِدھر یہ ہوا کہ ایک آدمی اپنے درختوں کو یا کھیتی کو پانی دینے کے لیے اُونٹ لایا تھا۔ اب یہ اشکال پڑا اِس کو کہ میں اگر نماز میں شامل رہتا ہوں تو اُس کا کرایہ پڑ رہا ہے، حرج ہورہا ہے، پانی نہیں دے سکوں گا مثلاً اِس کے ذہن میں یہ آیا کہ نیت توڑدوں۔ لہٰذا اُس نے اپنی الگ نماز پڑھ لی اور اپنے کام میں لگ گیا۔ حضرت معاذ کو یہ چیز بری لگی۔ انہوں نے کہا یہ کیا طریقہ ہے کہ نماز توڑدی اور اپنی پڑھ کر کام میں لگ گیا۔ نبی علیہ السلام کی خدمت میں شکایت : اُنہوں نے کچھ (بُرا بھلا)کہا۔ یہ بات اُس تک پہنچی تو اُس صحابی نے جناب رسول اللہ ۖ سے دونوں باتیں کہیں کہ یہ یہاں مغرب کی نماز پڑھتے ہیں پھر جاتے ہیں پھر عشاء کا وقت ہوتا ہے تو لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ میں ایسے پڑھ رہا تھا، اِنہوں نے لمبی سورت شروع کردی تو میں نے نماز توڑ کر اپنی پڑھ لی اور کام میں لگ گیا۔ اب یہ مجھے برا کہہ رہے ہیں۔ میرے بارے میں اِنہوں نے برے کلمات استعمال کیے لوگوں کے سامنے۔ نبی علیہ السلام کی جانب سے اصلاح : تو رسول اللہ ۖ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ پر خفاء ہوئے کہ یہ کیا کیا؟ بس جب عشاء کی نماز پڑھو تو سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی جیسی سورتیں ہیں یہ پڑھو، لمبی سورت سورہ ٔبقرہ وغیرہ ا(نہیں پڑھنی) ایک تو لوگ دن بھر کے تھکے ہوئے ہوتے ہیں نیند ویسے ہی آتی ہوتی ہے اُس وقت۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اُن کے بالکل ابتدائی دَور (کا معاملہ) تھا لیکن ذہین آدمی جو ہوتا ہے اُس کی ذہانت تو نمایاں ہونی شروع ہوجاتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ کبھی ایسی بات ہوجائے کہ جس میں اصلاح کی ضرورت پڑے۔ یہ تو ہر بڑے کا مقام ہوتا ہے چہ جائیکہ نبی۔ نبی اور غیر نبی کا تو بہت بڑا فرق ہے ،یہ تو ہر چھوٹے بڑے میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ علم میں انتہائی ترقی : لیکن رفتہ رفتہ اس واقعہ سے پہلے یا اُس کے بعد جیسے بھی ہوا آپ علم حاصل کرتے رہے برابر اور اتنے بڑے عالم ہوگئے کہ جناب رسول اللہ ۖ نے اِن کی تعریف فرمائی اور یہ فرمایا اَعْلَمُھُمْ بِالْحَلَال