ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2006 |
اكستان |
|
پشاور سے بعد ظہر روانگی کے بعد راستہ میں نوشہرہ کے جامعہ تحسین القرآن میں کچھ دیر کے لیے جانا ہوا۔ وہاں مولانا قاری عمر علی صاحب اور دوسرے اساتذہ سے ملاقات ہوئی۔ پھر وہاں سے اٹک (حضرو) میں (اُستاذ الحدیث جامعہ مدنیہ جدید) مولانا امان اللہ صاحب کے گھر گئے۔ عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ہم حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالغنی صاحب (جلالیہ) شاگرد ِرشید شیخ العرب والعجم مولانا سید حسین احمد مدنی کی زیارت اور ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ ملاقات ہوئی، ایک دو واقعات سنائے۔ اور حضرت مولانا سید محمود میاں صاحب کو روایت ِحدیث کی اجازت بھی دی۔ مغرب کی نماز کے بعد حضرت صاحب اپنے اُستادِ محترم حضرت مولانا ظہورالحق صاحب مدظلہم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت سے دُعائوں کی درخواست کی۔ بعدازاں مولانا امان اللہ صاحب کے گھر کھانا کھانے کے بعد رات 10بجے لاہور کے لیے روانہ ہوئے اور 8 ستمبر کی صبح 6بجے بخیریت واپس لاہور پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ حضرت صاحب کی عمر میں درازی عطا فرمائے اور ہماری اِصلاح فرمائے اور ہمارے شیخ پیر و مرشد صاحب کے فیض کو پوری دُنیا کے کونے کونے میں پہنچائے۔ اور حضرت صاحب کا سایۂ شفقت ہمارے اُوپر باقی رکھے اور حضرت صاحب کی خدمت میں ہمیشہ ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں کامل متبع سنت بنائے۔ بیان تبلیغی مرکز مدینہ مسجد لکی مروت ( حضرت اقدس مولانا سید محمود میاں صاحب دامت برکاتہم ) حدیث شریف میں ایک واقعہ آتا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے حضور ۖ سے کچھ سوالات کیے۔ جو حدیث جبرائیل کے نام سے مشہور ہیں۔ اُن سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی کیا کہ یارسول اللہ ۖ مجھے ''اِحسان'' کے بارے میں بتلادیجیے۔ ہر شخص اِحسان کا معنی اور مفہوم کو سمجھتا ہے۔ لیکن یہاں یہ عام مطلب مراد نہیں تھا۔ یہ کسی اور اعتبار سے سوال کیا تھا۔ حضور ۖ نے فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت اِس طرح کرو گویا کہ تم اُس کو دیکھ رہے ہو۔ اور اگر یہ حالت نہیں ہوسکتی تو کم سے کم درجہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ تم کو دیکھ رہا ہے، یہ احسان کا معنی ہے۔ حضور ۖ نے اِس حدیث شریف میں یہ بہت اہم سبق اُمت کو تعلیم فرمایا۔ یہ ایسا سبق ہے کہ جتنے سلوک کے سلاسل ہیں اُن سب میں آخری سبق یہی ہوتا ہے۔ اِس سے پہلے والے تمام اذکار