ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
سراجیہ برقاضی خان ص٦ج ٣ ) ''اس دور میں تعلیم قرآن مجید پر استاد کے لیے اُجرت لینا جائز ہے''۔ تقریباً پانچ سو علماء کرام کے مرتب کردہ فتاوی عالمگیری میں مشائخ بلخ اور امام ابوبکر کا فتوٰی تحریر کرکے لکھا گیا ہے کہ والمختار للفتوی فی زماننا قول ھٰؤلاء ہمارے دور میں فتوی کے لیے انہی حضرات کا قول مختار ہے (الفتاوی الہندیہ ص ٤٤٨ ج ٤)۔ امام محمد بن محمد بن شہاب بن بزاز حنفی (متوفیٰ ٨٢٧ھ ) نے بھی جواز کا فتوٰی نقل فرمایا ہے۔ (فتاوٰی بزازیہ علی الہندیہ ص٣٧ ج٤ ) فقہ حنفی کے معتبر فتاوی درمختار میں ہے : ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والامامة والاذان (درمختار برہامش رد المختار ص٣٨ ج٥ ) ''آج کے دور میں تعلیم قرآن مجید وفقہ وامامت واذان پر اُجرت صحیح ہونے کا فتوٰی دیا جائے گا ''۔ مشہور حنفی فقیہ علامہ محمد امین ابن عابدین شامی نے اس کو بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں : ''فقد اتفقت النقول عن ائمتنا الثلا ثة ابی حنیفة وابی یوسف ومحمد ان الاستیجار علی الطاعات باطل لکن جاء من بعد ھم من المجتہدین الذین ھم اھل التخریج والترجیح فافتوا بصحتہ علی تعلیم القرآن للضرورة فانہ کان للمعلمین عطایا من بیت المال وانقطعت فلولم یصح الاستیجار واخذ الاجرة لضاع القرآن وفیہ ضیاع الدین لاحتیاج المعلمین الی الاکتساب وافتی من بعدھم ایضا من امثالہم بصحتہ علی الاذان والا مامة لا نھما من شعائر الدین فصححواالاستیجار علیھما للضرورة ایضاً فھٰذاما افتی بہ المتاخرون عن ابی حنیفة واصحابہ لعلمہم بان اباحنیفة واصحابہ لوکانوا فی عصرھم لقالوا بذالک ورجعوا عن قولھم الاول۔۔۔۔۔الخ'' (شرح عقود رسم المفتی ص ٧١٦)