ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
وبعض مشائخنا استحسنوا الاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم وعلیہ الفتوٰی ''ہمارے بعض احناف (متاخرین) بزرگوں نے آج کے زمانہ میں تعلیم قرآن مجید پر اُجرت لینا مستحسن اور اچھا قرار دیا ہے اور اِسی پر فتوٰی ہے (ہدایہ ص٣٠١ ج٣) مشہور صاحب ترجیح فقیہ قاضی فخرالدین حسن بن منصور فرغانی (متوفی ٥٩٢ ھ ) فرماتے ہیں : ''قال الشیخ الامام ابوبکر محمد بن الفضل انما کرہ المتقدمون الاستیجار لتعلیم القرآن وکرھوا اخذ الاجرة علی ذالک لانہ کان للمعلمین عطیات فی بیت المال فی ذالک الزمان'' ''الشیخ امام ابوبکر محمد بن فضل (جو تیسری صدی کے بزرگ ہیں) فرماتے ہیں کہ متقدمین احناف نے تعلیم قرآن پر اُجرت لینا اِس وجہ سے مکروہ کہا کہ اِس دور میں اساتذہ و معلمین قرآن کے لیے بیت المال میںسے عطیات ملتے تھے''۔ اور چونکہ اس دور میں اُن کے عطیات بند ہوگئے اور اُخروی معاملات میں لوگوں کا شوق کم ہو گیا تو اگر معلمین باوجود دُنیاوی ضروریات کے تعلیم میں مشغول ہوں تو اُن کا روز گارخلل میں پڑے گا لہٰذا قلنا بصحة الاجارة ووجوب الاجرة للمعلم ہم کہتے ہیں کہ اُجرت لینا صحیح ہے اور استاذ کے لیے اُجرت واجب ہوگی حتّٰی کہ اگر والد بچے کا اُجرت نہ دے تو قید کیا جائے گا (حُبِسَ فِیْہِ ) اور فرماتے ہیں : ''قال الشیخ الامام شمس الائمة السرخسی ان مشائخ بلخ جوز والاجارة علی تعلیم القرآن واخذ وا فی ذالک بقول اھل المدینة وانا افتی بجواز الاستیجار ووجوب المسّمی''۔(فتاوٰی قاضی خان ص١٩ ج٣ ) ''امام شمس الائمہ سرخسی فرماتے ہیں کہ مشائخ بلغ نے مدینہ طیبہ والے علماء کا قول لے کرتعلیم قرآن مجید پر اُجرت لینا جائز قراردیا اور میں بھی فتوٰی دیتا ہوں کہ اُجرت لینا جائز ہے اور مقررہ اُجرت واجب ہوگی ''۔ حنفی فقیہ الشیخ سراج الدین اپنے فتا وٰی میں لکھتے ہیں : لا بأس للمعلم ان یأخذ الاجرة فی ہٰذا الزمان علی تعلیم القرآن۔ (فتاوٰی