ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
'' یہ غلطی ہے کہ تعلیم پر تنخواہ لینا جائز نہیںاوریہ جواز حنفیہ کے اصول پر بھی ہے کیونکہ جو شخص کسی کے کام میں محبوس ہوتا ہے اُس کا نفقہ اُسی کے ذمہ واجب ہوتا ہے یا نہیں ؟ دیکھو قضاة کو وظیفہ اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ محبوس ہیں دوسرے دیکھو بیت المال کیا ہے؟وہ مجموعہ ہے مسلمانوں کے مال کا جس کو سلطان حسبِ ضرورت مختلف مقاموں میں صرف کرتا ہے ۔علماء کو بھی اس میں سے وظائف دئیے جاتے تھے اور کسی نے اس کو حرام نہیں کہا تو چندہ کی بھی تو یہی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے مال کا مجموعہ ہے صرف اتنا فرق ہے کہ بیت المال سلطان کی طرف منسوب ہوتا ہے اس لیے لوگوں کی نظروں میںاس کی وقعت ہے چندہ کی وقعت نہیں ،ورنہ اصل میں دونوں یکساں ہیں پھر چندہ میںسے علماء کو وظیفہ لینا کیوں حرام ہونے لگا ہے ؟ اور تعینِ مقدار سے اس کے اُجرت ہونے کا شبہہ نہ کیا جائے، تعیین تو اس لیے کی جاتی ہے تاکہ بعد میں نزاع نہ ہو ورنہ اگر تعیین نہ کی جائے اور موافق ِضرورت دیا جائے تو اس میں اختلاف اور نزاع کا بڑا اندیشہ ہے ۔تم کہو مجھے اتنی مقدار ناکافی ہے دوسرا کہے کہ کافی ہے اس نزاع کے رفع کرنے کو پہلے ہی سے مقدار معین کردی جاتی ہے غرض تنخواہ کے جواز میں کوئی شبہہ نہیں''۔ (خطبات ِدین و دنیا ص٣٤ بقیہ : درس ِ حدیث ان کا تو دل عبادت میں بہت زیادہ لگا رہتا تھا اِن کے لیے یہ کافی نہیں ہوا۔ ذہن میں تشنگی رہی اور اجازت لیتے رہے حتی کہ آپ نے فرمایا اچھا !ایک دن رکھو ایک دن نہ رکھو۔ انھوں نے کہا میں تو اس سے زیادہ بھی رکھ سکتا ہوں اس سے افضل رکھ سکتا ہوں قوت رکھتا ہوں اس کی، آپ نے فرمایا نہیں اس سے افضل کوئی نہیںہے یعنی جو اللہ کو پسند ہے افضل تو وہ ہے بس، اب جسے تم کہتے ہو کہ یہ افضل ہے یعنی ہمیشہ ہی روزے سے رہو وہ افضل نہیںہے۔ حضرت دائود علیہ السلام اس طرح رکھتے تھے تو یہ جان جو انسان سمجھتا ہے کہ میری ہے اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ یہ تمہاری نہیں ہے اس کو اس طرح رکھنا پڑے گا جیسے ہم نے بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بلند درجات عطا فرمائے اور آخرت میں ہمیں ان کاساتھ عطا فرمائے ۔ آمین ۔ اختتامی دُعائ.............................