ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
دن کھیچڑ، حلیم ، کھیر، حلوا یا کسی اور قسم کا کھانا وغیرہ پکا کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ یا اپنے رشتے داروں کی رُوحوں کو ثواب بخشنا، ان کے نام کی نذر ونیاز دینا ۔حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی رُوح کو اس دن حاضر سمجھنا ،روٹیاں پکا کر تقسیم کرنا اورچھت کے اُوپر سے پھینکنا ،شادی کے بعد پہلی محرم میں بیوی کو ماں باپ کے گھر بھیج دینا، مختلف قسم کے سوگ کرنا، عورتوں کا بالوں کو کھول دینا، زیب وزینت کی تمام چیزوں کو ترک کردینا، چوڑیاں توڑ ڈالنا ، ماتم و نوحہ کرنا ،سیاہ لباس پہننا ، ننگے پائوں پھرنا، چارپائی پر نہ سونا ،سرپر سبز رنگ کی ٹوپی رکھنا، بچوں کے گلے میں سبز رنگ کی تھیلیاں لٹکادینا کہ یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے فقیر ہیں ۔ سبیل لگانا ، نوحہ وماتم کرنا، مرثیہ پڑھنا ، تعزیوں پنجوں کو نکالنا اور اُن پر عرضیاں لگانا، وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی تمام باتیں اوران کے بارے میں مختلف فضائل موضوع اور گھڑے ہوئے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں اوران چیزوں کا اس دن سے کوئی تعلق نہیں اوربعض ان میںسے شرک کے قریب تر ہیں ،لہٰذا اس قسم کی تمام باتوں سے بچنا ضروری ہے (والتفصیل فی ماثبت بالسنہ فی ایام السنہ از شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ )۔ دس محرم کے روزہ کی فضیلت : عن ابن عباس قال مارأیت النبی ۖ یتحری صیام یوم فضلہ علٰی غیرہ الا ھٰذا الیوم عاشوراء وھٰذا الشھر یعنی شھر رمضان (صحیح بخاری وصحیح مسلم ، مشکٰوة )۔ '' حضرت ابن ِعباس فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ رسولِ کریم ۖ کسی خاص دن روزہ کا اہتمام فرماتے ہوں اور اس کو کسی دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوں مگر سوائے اس دس محرم کے دن کے اور اس مہینہ یعنی رمضان المبارک کے مہینہ کے ۔'' فائدہ : حضور ۖ کے طرزِ عمل سے حضرت ابن ِعباس نے یہی سمجھا کہ آپ جس قدر نفلی روزوں میں عاشور ے کے دن کے روزے کا اہتمام فرماتے تھے اتنا رمضان کے بعد کسی دوسرے نفلی روزے کا نہیں فرماتے تھے۔ اس حدیث سے دس محرم کے روزہ کی فضیلت بالکل ظاہر اورواضح ہے۔ قال رسول اللّٰہ ۖ صیام یوم عاشوراء احتسب علی اللّٰہ ان یکفر السنة التی قبلہ ۔ (صحیح مسلم ، ابودا ؤد و مسند ا حمد)