ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
چوتھی دلیل : منور صاحب لکھتے ہیں ایک دوسری جگہ اس طرح فرمایا کہ : من تعلم علما مما یبتغی بہ وجہ اللّٰہ لا یتعلمہ الالیصیب بہ عرضا من الدنیا لم یجد عرف الجنة یوم القیامة ۔ ''جس نے علم دین دنیاوی غرض سے حاصل کیا قیامت کے دن بہشت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا''۔( ابو دائود ، اسلام یا مسلک پرستی ص١٧١ ) جواب : اول تو اس حدیث میں نیت درست کرنے پر تاکید ہے جس کی نیت درست نہ ہو اس کے لیے سخت وعید ہے لیکن نیت درست ہو اور بحالت ِاضطراری ضرورت کی حد تک وظیفہ لے تو اس حدیث میں اس کی مذمت ہرگز نہیں ہے ۔ دوم اس کی سند میں فلیح بن سلیمان راوی ہے جو اگرچہ صحاح کا راوی ہے لیکن اس پر جرح کی گئی ہے ،امام یحیی بن معین اور ابوحاتم اور نسائی فرماتے ہیں لیس بالقوی قوی نہیں ہے اور ابن معین فرماتے ہیں ثقہ نہیں ضعیف ہے قابل احتجاج نہیں ہے۔ابو کامل فرماتے ہیں ہم اس کو متہم سمجھتے تھے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف بولتا تھا ۔امام مظفر بن مدرک فرماتے ہیں تین آدمیوں کی روایت سے بچائو کیا جائے :محمد بن طلحہ بن مصرف، ایوب بن عتبہ ، فلیح بن سلیمان ۔امام ساجی فرماتے ہیں اگرچہ اہلِ صدق میں سے ہے لیکن وہمی ہے۔ امام ابودائودفرماتے ہیں فلیح سے حجت نہیں لی جاسکتی (میزان الاعتدال ص ٣٦٥، ٣٦٦ ج٣ )۔ علامہ ابن ِحجر فرماتے ہیں صدوق (سچا) ہے لیکن بکثرت غلطیاں کرنے والا ہے (تقریب ص١٦ج٢) ۔علامہ الشیخ مجدی حسن ایک روایت کے بارے میں جس میں فلیع بن سلیمان ہے فرماتے ہیں ضعیف الاسناد فیہ فلیح بن سلیمان ضعیف سند والی ہے اس میں فلیح بن سلیمان ہے، پھر فلیح کے بارے میں امام ابن معین اور ابوحاتم کے اقوال نقل کیے ۔مزید فرماتے ہیں کہ علی بن المدینی فرماتے ہیں کہ فلیح اور اس کا بھائی عبدالحمید دونوں ضعیف تھے (التعلیق علی الدار قطنی ص٦٥ ج١ ) توایسی حدیث سے حرمت کس طرح ثابت ہوسکتی ہے ۔ پانچویں دلیل : منور صاحب لکھتے ہیں :