ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
''ہمارے ائمہ ثلاثہ امام ابوحنیفہ اور ابویوسف اور محمد رحمہم اللہ سے روایات متفق ہیں کہ عبادات پر اُجرت لینا باطل ہے لیکن اِن کے بعد کے مجتہدین جو اہل تخریج واہل ترجیح ہیں ان سے منقول ہوا کہ انہوں نے بامر مجبوری تعلیم قرآن مجید پر اُجرت صحیح ہونے کا فتوٰی دیا کیونکہ پہلے معلمینِ قرآن مجید کے لیے بیت المال سے عطیات ہوتے تھے اور اب بند ہوگئے تو اگر اُجرت لینا صحیح نہ ہو تو قرآن مجید ضائع ہو جائے گا(یعنی لوگ نہ پڑھیں گے کیونکہ پڑھانے والے نہ ہوں گے )اور اس میں پورے دین کا ضیاع ہے کیونکہ معلمینِ قرآن کمانے کے محتاج ہو جائیں گے ۔ پھر اسی طرح کے علماء نے اُن کے بعد اذان اور امامت پر اُجرت صحیح ہونے کا فتوٰی دیا کیونکہ یہ دونوں شعائر ِدین میںسے ہیںلہٰذا اِن پر بھی بوجہ مجبوری اُجرت لینا صحیح قراردیا تو ان متاخرین نے جو یہ فتوٰی دیا تو اس وجہ سے کہ انہیں معلوم ہوا کہ اگر اُن کے دور میں امام ابوحنیفہ اوران کے شاگرد ہوتے تو وہ بھی یہی کہتے اوراپنے پہلے قول سے رجوع کرتے''۔ ان عبارات سے معلوم ہوا کہ (١) مدینہ طیبہ کے علماء اور بلخ کے سب احناف اور امام شمس الائمہ سرخسی اورابوبکر محمد بن الفضل ودیگر متاخرین ِاحناف نے تنخواہ جائز ہونے کا فتوٰی دیا ۔ (٢) ہمارے ائمہ ثلاثہ حرام قرار دیتے تھے ۔ (٣) لیکن اس وجہ سے کہ ان کے دور میں بیت المال سے معلمین کے وظائف ملتے تھے اور متاخرین کے دور میں ملنا بند ہو گئے تھے اس وجہ سے بامر مجبوری متاخرین نے جائز قراردیا ۔ (٤) متقدمین نے بیت المال سے وظائف لینے کو کبھی حرام نہیں کہا تھا تو متاخرین نے یہی سوچا کہ اگر بیت المال سے لینا حرام نہ تھا (اور بیت المال مسلمانوں کے مال کے مجموعہ کا نام ہے )تو براہِ راست خود مسلمانوں سے تنخواہ لینا بھی ناجائز نہیں ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اللہ علیہ نے بہترین الفاظ میں وضاحت فرمائی ہے وہ فرماتے ہیں :