ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
''عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو اُن کے ایک شاگرد نے جس کو انہوں نے قرآن پڑھایا تھا تحفہ کے طورپر ایک کمان دی اُس کے متعلق جب نبی ۖ سے پوچھا گیا تو ا پ ۖ نے فرمایا اگر یہ پسند کرتے ہو کہ آگ کا طوق پہنو تو اس کو قبول کرلو ان کنت تحب ان تطوق طوقا من نار فاقبلھا۔ (ابودائود کتاب البیوع۔ اسلام یا مسلک پرستی ص١٧١) جواب : اس کی سند میں کئی راوی متکلم فیہم ہیں : (١) مغیرہ بن زیاد البجلی الموصلی جس پر حدیث کا مدار ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں ضعیف الحدیث ہے اس کی کئی منکرروایات ہیں ۔ امام نسائی فرماتے ہیں لیس بالقوی قوی نہیں ہے ۔امام ابواحمد حاکم فرماتے ہیں لیس بالمتین عندہم محدثین کے نزدیک مضبوط نہیں ہے ۔امام ابن معین فرماتے ہیں لابأس بہ لیکن اس کی ایک حدیث ہے جو منکر ہے کچھ محدثین نے اس کی تعدیل بھی کی ہے۔ امام ابن حجر فرماتے ہیں سچاہے لیکن لہ اوھام اس کے بہت سے وہم ہیں (تقریب) (میزان ص١٦٠ ج٤)۔ (٢) اسود بن ثعلبہ امام علی بن المدینی فرماتے ہیں لایعرف مجہول ہے۔(میزان ص٢٥٦ ج١) علامہ ابن حجر فرماتے ہیں مجہول ہے (تقریب ج ا) اور فرماتے ہیں اسنادہ ضعیف اس روایت کی سند ضعیف ہے۔(الدرایہ حدیث ص ٨٦٦) اگر بالفرض صحیح بھی ہوتو عزیمت پر محمول ہے اور حِلت کی روایات رخصت پر محمول ہیں۔ اس لیے اگر آدمی سے ہو سکے تو عزیمت پر عمل کرتے ہوئے وظیفہ نہ لے لیکن مجبوری کی صورت میں رُخصت ہے ۔ چھٹی دلیل : امام اعظم رحمہ اللہ کا فتوٰی : منور صاحب لکھتے ہیں : '' اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فتوٰی ہے کہ اذان ، نماز ، امامت ،حج ، تعلیم قرآن وحدیث اور فقہ پر اُجرت لینا ناجائز اورحرام ہے''۔ (ہدایہ عربی ص٢٨٧) جواب : ہدایہ میں اسی عبارت کے بعد صاحبِ ہدایہ فرماتے ہیں :