ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
ر لیتے تھے تو اُس کا سر کاٹ کربادشاہ کے پاس بھیج دیتے تھے تاکہ بادشاہ کو خوشی ہو، حوصلہ افزائی ہو رعایا کی ، سب کی ۔ کسی ایسی جگہ لگا دیتے تھے جہاں سب دیکھیں ہمت بڑھانی مقصود ہوتی تھی۔ اسی طرز پر حضرت ابوبکر کے پاس ایک شخص کا سر لایا گیا جو خوب سرکش تھا اورمسلمان فوجیں وہاں غالب آئیںاُس کے سر کو کاٹا گیا اور بھیج دیا گیا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ۔ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو پسند نہیں کیا، کتنے سر لائو گے، تم تو آگے بڑھتے جائو گے اس کی کیا ضرورت ہے۔ دشمن کا سر کاٹ کر بھیجنا منع تو نہیں ہے اگر خاص ضرورت کی وجہ سے ایسا کیا جائے ورنہ یہ پرانا بادشاہی رواج تھا اس کو انہوں نے ترک کردیا۔آگے بڑھتے جانا جو تھا ،یہ پتا تھا انھیں کیونکہ رسول اللہ ۖ نے بتلا دیا تھا کہ اس طرح سے تم فتح کرلوگے ساری دنیا اور یہ کسری اور اُس کے خزانے جو ہیں یہ تمہارے پاس آئیں گے اور لَتُنْفِقُنَّ کُنُوْزَ ھُمَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ان کے خزانے جو آئیں گے یہ تم خدا کی راہ میں خرچ کروگے۔ اس میں صحابہ کرام کے لیے بھی دو بشارتیں ہیں ایک یہ کہ کامیاب ہوگے خزانے حاصل کریں گے دوسری یہ کہ خرچ بھی وہ صحیح کریں گے فی سبیل اللہ خرچ کریں گے۔ جہاد میں گردو غبار کی فضیلت : تو ابوبکررضی اللہ عنہ نے یہ پہلا لشکر جب روانہ کیا ہے شام کی طرف تو چلے کچھ دُور، اورپھر فضیلت کیا ہے پیدل چلنے میں۔ پیدل چلنے میں فضیلت یہ ہے کہ گرد اُڑتا ہے وہ لگتا ہے بدن کو پائوں کو، پائوں گرد آلودہو جائیں گے تو اُس گرد کی بھی فضیلت ہے وہ بھی مغفرت کا ذریعہ ہے تو انھوں نے کہا کہ یہ گرد لگنا خدا کو پسند ہے اس لیے وہ پیدل چلتے رہے انہیں نہیں اُترنے دیا ۔ہدایات میں یہ بھی تھیں کہ درخت نہ کاٹیں وہ شاید اس لیے کہ اُن کو پتا تھا کہ یہ علاقہ فتح ہوگا تو یہ درخت جو پھل دار ہیں یہ ہمارے کام آئیں گے ۔وہاں کے باشندے جو رعایا بن جائیں گے اُن کے کام آئیں گے۔ اور پھل دار درخت جو ہے وہ لگاتے ہیں توپھل نہیں دینے لگتا کچھ عرصہ لگتا ہے اس کو۔ مختلف مدتیں مقرر ہیں اتنے عرصہ بعد پھل آئے گا تو انھوں نے منع کردیا اوراس کی وجہ یہی بتاتے ہیں کہ انھیں پتا تھا کہ یہ علاقہ فتح ہوگا اور اس طرح ہماری حکومت ہوگی لہٰذا اسے کاٹنے کی ضرورت کوئی نہیں لیکن اگر ضرورت پڑ جائے فرض کیجیے انھوں نے (یعنی دشمن نے )اُنہی درختوں کو آڑبنا رکھا ہے اس کے پیچھے لڑ رہے ہیں اور فتح ہونے میں دشواری ہو رہی ہے نقصان ز یادہ ہورہا ہے ایسی صورت میں پھر درختوں کو کاٹاجاسکتا ہے یعنی جواز اس کا ہے،ضرورت کے لیے کاٹا جا سکتا ہے ۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ پر اصل میں بات چلی تھی تو میں یہ سُنا رہا تھا