ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
فرمائیے جناب ! جب امام احمد (جو کہ اس روایت کے مرکزی پہلے راوی ہیں ) خلافِ قرآن عقیدہ رکھنے والے ہیں تو اس راوی کی روایت کیسے صحیح ہوگی؟ اس کا راوی یحیٰ بن ابی کثیر مد لِّس ہے اور مدلِّس کی روایت'' عن'' سے قبول نہیں ہوتی(تقریب و میزان )۔ آنجناب کے قول کے مطابق یہ روایت بخاری شریف کی روایت ان احق مااخذتم علیہ اجراکتاب اللّٰہ کے بھی خلاف ہے تو مسند احمد کی یہ روایت جو روایت بخاری کی ضد ہے کیسے حجت ہے؟ یہاں آنجناب بخاری شریف کی روایت چھوڑ کر مسند امام احمد رحمہ اللہ کی روایت کے کیوں پیرو ہو گئے؟ کیا یہ مطلب پرستی نہیں ہے؟ (٢) علامہ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ عنہ کی روایت اس کے معارض ہے جس میں ہے کہ صحابی نے دم کیااوراس کے عوض میں بکریاں لیں اور نبی ۖ نے بھی اس پر فرمایا ان احق مااخذتم علیہ اجرا کتاب اللّٰہ تو فرماتے ہیں وفیہ اِشعار بنسخ الحکم الاول اس سے معلوم ہوا کہ پہلا ممانعت کا حکم منسوخ ہے ،واللہ اعلم (الدرایة) (٣) حرمت کے ثبوت کے لیے نص قطعی الثبوت ضروری ہے اور یہ حدیث یا اس طرح کی دوسری احادیث اخبار احاد ہیں جو قطعی الثبوت نہیں اس لیے اس قسم کی روایت سے حرمت ہرگز ثابت نہیں ہوتی، زیادہ سے زیادہ خلافِ اولیٰ یا مکروہ ہونا ثابت ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو صاحب استطاعت ہو وہ کوشش کرے کہ فی سبیل اللہ مفت تعلیم دے لیکن جو صاحب ِاستطاعت نہیں وہ نیت درست رکھے اور بامرِ مجبوری ضرورت کے مطابق تنخواہ پر کفایت کرے ، زیادہ کا مطالبہ نہ کرے تو یہ مخلص ہے ۔ تیسری دلیل : اتخذ مؤذنا لا یأ خذ علی اذانہ اجرا ۔ (ترمذی ص١٢١ ج١۔ابودا ء ود ص٢٢٩ ج١) ''ایسا مؤذن مقرر کر جو اذان پر اُجرت نہ لے'' جواب : اس روایت کی سند صحیح معلوم ہوتی ہے اس کی توجیہ یہ ہے کہ خلافِ اولیٰ پر محمول ہے جس میں جواز کی گنجائش بھی ہوتی ہے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عملاً مؤذنوں کا وظیفہ مقرر کرکے اس کو واضح فرمایا۔ ہمارے صوبہ سرحد میں تقریباًاس پر عمل ہے کہ اُجرت والا مؤذن نہیں ہوتا، یا امام اذان دیتا ہے یا کوئی عام مقتدی مؤذن ہوتا ہے جس کی اُجرت نہیں ہوتی ،بہر صورت اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ خبر واحد ہے ۔