ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
یہ بھی تھا کہ کوئی پھلدار درخت نہ کاٹا جائے اور جیسی ہدایات معروف ہیں اسلام کی جہاد کے متعلق وہ دیں ۔ ''جہاد ''اور'' جنگ ''میں فرق : جہاد میں اور دوسری قوموں کی لڑائیوں میں بڑا فرق ہے یہ جو لڑائیاں ہوتی ہیں جنگیں جنہیں کہاجاتا ہے ان میں تو بالکل پروا نہیں کی جاتی کہ کون مارا جارہا ہے حتی کہ وہ نسل کشی کرتے ہیں جیسے اسپین میں جب عیسائیوں کا غلبہ ہوا اُنھوں نے نسل کُشی کی ہے، مسلمانوں کو بالکل ختم کر ڈالا جو چھپے چھپائے رہ گئے رہ گئے ۔یہ تو ہیں لڑائیاں اور جنگیں ، باقی ''جہاد ''جہاد میں تو احکام دوسرے ہوتے ہیں ۔اس میں تو یہ ہے کہ صرف لڑنے والے سے لڑا جائے گا، ہتھیار ڈال دے تو نہیں لڑاجائے گا ،ذرا سی بات ہو جائے تو اس کوچھوڑنا پڑ جائے گا۔ کسی شخص نے کہیں سے دیکھا کسی دشمن کو اور وہ (دشمن ) ڈر رہا ہے آتے ہوئے ،چاہے مسلح ہے وہ ،اور اُس سے کہہ دیا جائے ڈرو مت ''مترس'' فارسی میں کہہ دیا جائے جیسے ایران کی طرف ہوا ہے اور وہ (دشمن ) پاس آگیا اب اس کے بارے میں یہ مسئلہ ہے اسلامی کہ وہ امن میں ہو گیا اسے نہیں مار سکتے، تو اسلام میں جو احکام ہیں لڑائی کے جہاد کے بالکل مختلف ہیں ۔ عورتوں کو نہیں مارا جائے گا، بچوں کو نہیں مارا جائے گا، بوڑھوں کو نہیں مارا جائے گا ، راہبوں کو جو تارک الدنیا ہیں اُن سے کچھ نہیں کہاجائے گا لیکن اسلام کے علاوہ باقی تمام مذاہب کے متبعین جو مذہبوں کا دعوٰی کرتے ہیں کہ ہم اس مذہب پر ہیں انھیں ان آداب کی ان لڑائی کے طریقوں کی کچھ خبر نہیں اور اس کا بہت بُرا اثر یہ پڑتا ہے کہ اتنا بڑا علاقہ جب فتح ہوجائے تو پھر ایسے ایسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اقتصادی کہ جنھیں سنبھالنا مشکل ہوتا ہے حکمران طبقہ کو ۔ حضرت عمر اورحضرت عثمان کے زمانہ میں ایران اورسندھ کے بعض علاقے فتح ہو چکے تھے : اب مسلمانوں کا یہ ہوا کہ انھوں نے جہاد شروع کیا تو ایک سپر پاور سلطنتِ رُومہ بالکل ختم ہو گئی، فتح کرتے چلے گئے آگے تک، افریقہ میں داخل ہوئے وہاں پرلے سرے تک پہنچ گئے پھر یورپ میں اُدھر سے بھی داخل ہوئے اسپین میں پہنچ گئے، جبل الطارق جسے انگریزی میں جبرالٹر کہتے ہیںپار کرکے وہاں پہنچ گئے ۔ اس طرف (یعنی مشرق کی طرف ) تو ادھر بھی یہی ہوا کہ ایران کی دوسری سپر پاور جو اس وقت موجود تھی وہ ختم ہو گئی۔ آگے بڑھے اوربڑھتے بڑھتے یہاں تک آگئے ۔آذربائیجان وغیرہ تک تو حضرت عمر کے دور میں پہنچ گئے تھے اس طرح کرمان ،مکران یہ بھی ١٨ھ میں فتح ہو گئے تھے حضرت عمر کے دور میں ،ایک ہی سال میں یہ فتح ہو گئے تو سندھ تک آگئے تھے اورسندھ کا بعض علاقہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں فتح ہو چکا تھا ۔حجاج ابن یوسف نے