ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
'' حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے کہ یہودی دس محرم کے دن کی بہت تعظیم کیا کرتے تھے اوراس دن عید منایا کرتے تھے پس رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ تم اس دن روزہ رکھو ''۔ تنہا دس محرم کا روزہ : عن ابن عباسقال حین صام رسول اللّٰہ ۖ یوم عاشوراء وأمر بصیامہ قالوا یارسول اللّٰہ ! انہ یوم تعظمہ الیھود والنصارٰی فقال رسول اللّٰہ فاذا کان العام المقبل ان شآء اللّٰہ صمنا الیوم التاسع قال فلم یأت العام المقبل حتی توفی رسول اللّٰہ ۖ ۔ (مسلم وابوداؤد فی الصوم )۔ ١ ''حضرت ابن ِعباس فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ ۖ نے دس محرم کے دن روزہ رکھا اور صحابہ کوبھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ ایسا دن ہے کہ یہودونصارٰی اس کی بہت تعظیم کرتے ہیں (اورروزہ رکھ کر ہم اس دن کی تعظیم کرنے میں یہودونصارٰی کی موافقت کرنے لگتے ہیں جبکہ ہمارے اورانکے دین میں بڑا فرق ہے )۔ آپ نے فرمایا کہ آئندہ سال انشاء اللہ ہم نویں تاریخ کو (بھی ) روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابنِ عباس فرماتے ہیں کہ آئندہ سال محرم سے پہلے ہی (ربیع الاول ) آپ کاوصال ہوگیا''۔ فائدہ : نبی کریم ۖ ابتداء اسلام میں ان باتوں میں جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حکم نازل نہیں ہوتا تھا اہلِ کتاب (یہود ونصارٰی ) کی موافقت کو پسند فرماتے تھے جس میں بہت سی حکمتیں تھیں لیکن بعد میں یہ بات منسوخ اورختم ہوگئی اوراہلِ کتاب کی مخالفت کا قولاً اور فعلاً اہتمام کیا جانے لگا تھا جو بہت سی وجہ سے ضروری تھا ۔(خصائل ِنبوی بتغیر) عن ابن عباس قال صوموا التاسع والعاشروخالفوا الیھود (ترمذی ج١ ص٩٤ بیہقی، تلخیص الحبیرواسنادہ قوی معارف السنن ج٥ ص٤٣٤) ١ بعض حضرات کو اس حدیث سے مغالطہ لگا ہے کہ عاشوراء کا روزہ صرف نویں تاریخ کو رکھنا چاہیے حالانکہ اس حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے کہ صرف دسویں تاریخ کا تنہا روزہ نہ رکھا جائے بلکہ اس کے ساتھ نویں تاریخ کا بھی روزہ ملا لیا جائے یا پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں تاریخ کا روزہ ملالیا جائے ان دونوں باتوں کی تائید اور وضاحت خود حضرت ابن عباس کی دوسری روایات سے ہوتی ہے جو کہ آگے آرہی ہیں ۔