ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
''اور ماپ پورا بھردو جب ماپ کردینے لگو اورسیدھی ترازو سے تولو''۔ سود کے بارے میں حکم نازل ہوا ۔یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْ مِنِیْنَ ۔ ( پ٣ ع ٦ ) ''اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو! اور جو کچھ سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو۔اگر تم کو اللہ کے فرمانے کا یقین ہے ''۔ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ۔(پ٣ رکوع ٦) ''پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہوجائو اللہ اوراُس کے رسول سے لڑنے کواوراگر توبہ کرتے ہو تو تمہارے واسطے تمہارا رأس المال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ کوئی تم پر'' ۔ وَاِنْ کَانَ ذُوْعُسْرَةٍ فَنَظِرَة اِلٰی مَیْسَرَةٍ وَاَنْ تَصَدَّقُوْاخَیْرلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ وَاتَّقُوْا یَوْماً تُرْجَعُوْنَ فِےْہِ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّاکَسَبَتْ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ ۔ ( پ٣ ع ٦ ) '' اوراگر( مقروض ) تنگدست ہے تو اُسے کشایش ہونے تک مہلت دینا چاہیے اور اگر بخش دو تو تمہارے لیے بہت بہتر ہے ۔ اگر تم کو سمجھ ہو اور اُس دن سے ڈرتے رہو جس دن اللہ کی طرف لوٹا دئیے جائوگے پھر شخص کو جو کچھ اس نے کمایا پورا دیا جائے گا اور اُن پر ظلم نہ ہوگا''۔ سود ایک ایسی چیزہے جسے ضرورت مند انسان شدید ضرورت کے وقت لیتا ہے اور دینے والے کے پاس رقم ضرورت سے زائد ہوتی ہے اس لیے دیتا ہے ۔ آپ خور کریں تو ضرورتمند سود لینے کے بعد زیادہ ضرورت مند ہو جاتاہے اوردینے والا زیادہ مستغنی مالدارتر ، جس سے لا محالہ معیشت انسانیہ کا نظام تباہ وبرباد ہو جاتا ہے اورپھر انقلابات آتے ہیں۔ نفسیاتی طورپر سود دینے والا اپنی منفعت پر نظر رکھنے کا عادی ہو جاتاہے اس میں ایثار وقربانی ،رحم دلی کا مادہ رفتہ رفتہ ختم ہو کر رہ جاتا ہے اس لیے شریعت مطہرہ نے اسے حرام ہی قراردیدیا ۔اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہیں