ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
ِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا ۔ ( پ ٥ع٢) اور سود خور شخص کے دل سے رحم کا مادہ خارج ہو تاجاتاہے آخر کار وہ ظالم ِمحض بن کررہ جاتاہے ۔خلق ِخدا کی ضرور ت مندی اور احتیاج سے وہ ناجائز فائدہ اُٹھانے کا متلاشی رہتا ہے ۔دوسروں کی محتاجگی اُس کے عین سکون وراحت کا سبب ہوتی ہے اوراس طرح گویا وہ اُن صفات حسنہ سے لڑرہا ہے جو اللہ اور رسول نے اختیار کرنے کا حکم دیاہے شاید اس لیے ''اللہ ورسول سے جنگ '' کی وعید شدید وارد ہوئی ۔ مشرکین عرب میں یہ لعنت یہودیوں سے آئی تھی اوران کی فطرت تھی کہ حرام کو تاویلات کرکے حلال سمجھے لیا کرتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے اور اصرار کرتے تھے۔ ویسے بھی انسان میں مالی لالچ آسانی سے غالب کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد وہ مال کے لالچ میں عقلی دلائل لاتا ہے ۔استدلالات سے حقائق ِفطریہ کوتوڑنا چاہتا ہے اس لیے اسے قیامت میں اس کے مناسب سلب ِعقل کی سزا دی جائے گی ۔ اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ۔(پ٣ رکوع ٦) ''جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اس طرح اُٹھیںگے جیسے وہ شخص اُٹھتا ہے کہ جس کے حوا س جن نے لپٹ کر کھو دئیے ہوں ''۔ ذَالِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْآ اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا وَاَحَل اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا۔(پ٣ ع ٦ ) ''ان کی یہ حالت اس واسطے ہوگی کہ اُنہوںنے کہا کہ سوداگری بھی تو ایسی ہی ہے جیسے سودلینا ، حالانکہ اللہ نے سوداگری کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے ''۔ حضرات ! ان چند آیات کے احکام یہ ہوئے کہ امانت ادا کرنی لازم ہوئی ،تجارت میں دیانتداری شرط اور تراضی طرفین ضروری ہوئی ،اورسود حرام قراردیا گیا۔ اسلام میں احتکار (اُن تمام چیزوں کی ذخیرہ اندوزی جو حیات کے لیے ضروری ہوں ) بھی ممنوع ہے کیونکہ جگہ جگہ احسان کا حکم فرمایا گیا ہے اور احتکار احسان نہیں بلکہ اس کے برعکس فعل منکر ہے۔