ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
کرنے کی تعلیم دی ہے جو یقینا سب سے بلند مقصود ہے ۔عدل واحسان ،عفوودر گزر، رحم ،برائی کی جگہ نیکی، زبان دل اور عمل کی سچائی ،شجاعت، سخاوت، عفت و پاکبازی ،امانت ودیانت، شرم وحیا،حِلم وبردباری، تواضع و خوش کلامی، ایثار، اعتدال ، عزت نفس، استغناء ،حق گوئی ،استقامت، حقوق والدین ، حقوق اہلِ قرابت، حقوق زوجین، ہمسایہ اور یتیموں کے حقوق ،حاجتمند، بیمار، مہمان ،غلام، اور انسانی برادری کے حقوق حتی کہ جانوروں کے حقوق تعلیم فرمائے۔ جھوٹ ،وعدہ خلافی، خیانت وبد دیانتی، غداری، بہتان ،چغلخوری، غیبت ، دورُخاپن، بدگمانی، حرص وطمع حسد، بخل ،چوری، ناپ تول میں کمی، رشوت، سود خوری، شراب خوری، فخروغرور، غیظ وغضب ، ظلم، ریاکاری، خودنمائی ، فحش گوئی، طعنہ زنی ،فضول خرچی وغیرہ سے منع فرمایا۔ فطری آداب تعلیم کیے،طہارت وپاکیزگی، مجلس کے آداب، کھانے پینے کے آداب، ملاقات وگفتگو کے آداب، باہر نکلنے اور چلنے پھرنے کے آداب، سفر کے آداب، سونے جاگنے کے آداب ،لباس کے آداب ،خوشی اور غمی کے آداب سکھائے۔ توحید، رسالت ،تزکیہ نفس، طریق عبادت یعنی بندوں کا خداسے تعلق اور جوڑ بہترین طریقوں سے تعلیم فرمایا۔یہ اسلامی تعلیمات کا ایک مختصر سا خاکہ ہے۔ اب خود ہی انصاف کریں کہ اگر کسی قوم میں یہ اوصاف نہ ہوں تو اُسے یہ اوصاف سکھانے اس قوم پر رحم کھانا ہے یا ظلم کرنا۔ اسلام نے اگر تلوار اُٹھائی ہے تو صرف اس لیے اُٹھائی ہے اور جنہوں نے اسلام سے رُوگردانی کی ہے وہ صرف اپنی خواہش ِنفس کے لیے کی ہے۔ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰاھُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَھُمْ وَاِنَّ فَرِیْقًا مِّنْھُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ۔ ''اہلِ کتاب رسول اللہ ۖ کا رسولِ خدا ہونا اس طرح جانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کا اپنا بیٹا ہونا یقینی طورپر جانتے ہیں اور ان میں سے ایک فریق حق کو جاننے کے باوجود چھپاتا ہے ''۔ ان ہی اوصافِ جلیلہ کے باعث فتح مکہ کے بعد جب لوگ مسلمانوں سے ملے جلے تو امام زہری