ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
سکھا سکتے ہیں وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ مال بڑھانے کے لیے کتنی سچائی ،دیانت اورکن اخلاق واصول کی ضرورت ہے اورمال کی فراوانی کے باعث چھوٹی موٹی خیانتیں نہیں کرتے۔ کمائی کی خاطر مرد وعورت کاروبار میں لگے رہتے ہیں اور حکومت اپنے جائز وناجائز غلبہ کی فکر میں ۔ یہ اُن کی تہذیب وترقی کا خاکہ ہے۔ آئیے دیکھیں ! پیغمبراسلام نے بلکہ پچھلے انبیاء کرام نے جنہوں نے جہاد کیا ہے جہاد کا کیا نظریہ بتلایا ہے ؟ اُن کا نظریہ جہاد یہ ہے کہ صرف خدا کی رضا حاصل کرنے اوراُس کے دین کو پھیلانے کے لیے جہاد ہوگا لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا۔ ہدایہ میں ہے : وانما فرض لاعزاز دین اللّٰہ ودفع الشرعن العباد۔ ''جہاد صرف اس لیے فرض ہوا کہ خدا کے دین کو غالب کیا جائے اوربندوں سے شرکو رفع کردیا جائے''۔ رسول اللہ ۖ کا ارشاد ہے : اُمِرْتُ اَنْ اُقَاتِلَ النَّاسَ حَتّٰی یَقُوْلُوْا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ۔ ''مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا حتی کہ وہ لا الٰہ الا اللّٰہ کہیں''۔ ہمارے قانون کی عظیم کتاب ہدایہ میں ہے :ولا یجوزان یقاتل من لم تبلغہ الدعوة الی الاسلام الا ان یدعوہ۔ ''جسے اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو اُس سے لڑنا صرف اُس صورت میں درست ہے کہ جب اسے دعوت ِاسلام د ے دی جائے''۔ اگر صرف ان نفسانی اغراض کا نام بلندی رکھا جائے جو آج کی مہذب اقوام کا مقصود ہیں اور اس کی خاطر ہر مکروہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے تباہ کن لڑائیاں مول لی جاتی ہیں تودین ِاسلام کی خاطر کیوں نہ قتال جائز ہوگا جس کی تعلیمات سراسر مبنی بر خلوص اور خلقِ خدا کے لیے رحمت ہیں ۔اسلام نے بے غرضی ،بے نفسی اور رضاء الٰہی حاصل