ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2005 |
اكستان |
|
قی ہے۔ ١ عن ابن عباس ان رسول اللہ ۖ قدم المدینة فوجد الیھود صیاما یوم عاشوراء فقال لھم رسول اللّٰہ ۖ ماھٰذا الیوم الّذی تصومونہ فقالواھٰذا یوم عظیم انجی اللّٰہ فیہ موسٰی وقومہ وغرق فرعون وقومہ فصامہ موسٰی شکرًا فنحن نصومہ فقال رسول اللّٰہ ۖ فنحن أحق واولٰی بموسٰی منکم فصامہ رسول اللّٰہ ۖ وأمربصیامہ ۔(بخاری فی الصوم ، مسلم فی الصیام واللفظ لہ ، ابوداؤد فی الصوم ، ابن ماجہ فی الصیام ،دارمی فی الصوم شرح معانی الاٰثار ومسند احمد) '' حضرت ابن ِعباس سے مروی ہے کہ نبی کریم ۖ جب مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دس محرم کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اس دن کی کیا خصوصیت ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم ( اور نیک ) دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اورانکی قوم کو نجات دی ( اور فرعون پر غلبہ عطا فرمایا)اور فرعون اوراسکی قوم کو غرق کیا، چونکہ موسیٰ نے بطورِشکر (اوربطورِ تعظیم ) اس دن روزہ رکھا تھااسلیے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ تمہارے مقابلے میں ہم موسیٰ سے زیادہ قریب ہیں اور (بطورِ شکر روزہ رکھنے کے )زیادہ حقدار ہیں چنانچہ آ پ نے دس محرم کے دن خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو روز ہ رکھنے کی تلقین فرمائی''۔ عن ابی موسٰی قال کان یوم عاشورآء یوماً تعظمہ الیھود وتتخذہ عیداً فقال رسول اللّٰہ ۖ صوموہ انتم (بخاری فی الصوم والمناقب ، مسلم فی الصیام واللفظ لہ مسند احمد و شرح معانی الاٰثار ) ١ موطاء امام مالک اور ابودائود میں یہ الفاظ بھی ہیں ''فلما فرض رمضان کان ھوالفریضة''اورسننِ ترمذی میں یہ الفاظ ہیں ''فلماافترض رمضان کان رمضان ھوالفریضة ''ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رمضان کے روزے فرض ہوجانے کے بعد دس محرم کے روزے کی فرضیت ختم ہوگئی ۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : مجمع الزوائد ج٣ ص١٨٤، عمدة القاری شرح بخاری ج١١ ص١١٩ ، فتح الباری شرح بخاری لحافظ ابن حجر ج٤ ص٢١٤ باب صیام یوم عاشورائ۔