ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2004 |
اكستان |
|
چاہیے تھا آدمی کی رہبری کو آدمی مرسلوں کو سربراہ مرسلاں درکار تھا زندگی پر کیسے کھل جاتے رموزِ زندگی قولِ حق کو اُن کا اندازِ بیاں درکار تھا منجمد تھی کب سے صحرائے عرب میں تِیرگی حق نے پیغمبر وہیں بھیجا جہاں درکار تھا نور اُن کا عرش پر مولود اُن کا خاک پر آسمانوں سے زمیں کو ارمغاں درکار تھا اے محمد ۖ تو نے رکھ لی مسلکِ آدم کی لاج جس کو دانائے دو حرف ''کن فکاں'' درکار تھا اُن سے ملتے ہی نظر کافر مسلماں ہوگئے اس کے معنی ہیں حرم کو پاسباں درکار تھا دُھوپ میں ڈھوئے تھے پتھر اس لیے سرکار نے حشر کے دن رحمتوں کا سائباں درکار تھا رحمة للعالمینی سے جلے دل کے چراغ اِنس وجاں کو خیر خواہِ اِنس و جاں درکار تھا سچ تو یہ ہے اُس خدائے دو جہاں کے واسطے بزم عالم میں رسولِ دو جہاں درکار تھا