ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
|
سمعت الحسن قال سمعت علیا یقول قال رسول اللّٰہ ۖ مثل امتی مثل المطر'' الحدیث ٧٠ (ترجمہ) (ابویعلی کہتے ہیں کہ)ہم سے حوثرہ بن الاشرس نے بیان کیا ، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عقبہ بن ابی الصہباء الباھلی نے خبردی ،وہ کہتے ہیں کہ میںنے حسن کو یہ کہتے سنا ،حسن کہتے ہیںکہ میں نے علی کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ میری اُمّت کی مثال بارش کی سی ہے (نہیں معلوم کہ اس کا پہلا حصہ اچھا ہے یا آخری)۔ اس روایت میں ''سمعت علیا یقول''(میں نے علی کو یہ کہتے سنا) کے الفاظ صریح طور پر علی سے حسن کے سماع کو بتا رہے ہیں کیونکہ ''سمعت '' کا صیغہ محدثین کے نزدیک سماع میں صریح ہے ٧١ اس روایت کے تمام رواة ثقہ ہیں ۔ابو یعلی بالاتفاق حافظ حدیث اور ثقہ ہیں ۔ابن خبان نے ثقات میں ابو یعلی کواتقان اوردین کے ساتھ متصف کیا ہے۔ ٢ ٧ حاکم نے ابویعلی کا ذکر ''ثقہ مامون ''کے الفاظ سے کیا ہے ٧٣ اور ذہبی نے ان کے لیے حافظ ،ثقہ اور محدث الجزیرہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ ٧٤ حوثرہ ٧٥ کو ابن حبان ثقہ مانتے ہیں،اسی لیے انہوں نے ان کاذکر کتاب الثقات میں کیا ہے ٧٦ اور عقبہ کی توثیق امام احمد نے کی ہے ۔ ٧٧ خلاصہ یہ ہے کہ مسند ابو یعلی کی اس روایت سے جس کے تمام رواة ثقاة ہیں ۔علی سے حسن کا سماع صریح طور پر ثابت ہو تا ہے۔ ٧٠ اتحاف ص ٨٠ ۔حدیث کا باقی حصہ یہ ہے ۔''لا یدری اولہ خیرام آخرہ'' ٧١ تقریب نووی ص ١٤٤ ٧٢ تذکرة الحفاظ ٢/٢٤٩ ٣ ٧ ایضاً ٧٤ ایضاً ٢/٢٤٨ ٧٥ علامہ سیوطی کی الحاوی للفتاوی (٢/١٩٤) میں ''حوثرہ'' کے بجائے ''جویریہ ''ہے اور حسن الزمان خان بھی لکھتے ہیں کہ بعض نسخوں میں جویریہ ہے لیکن وہ وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ حوثرہ ہے جویریہ نہیں (القول ١/٢٠٠ ) اور جو وہ کہتے وہی درست ہے کیونکہ جویرہ ابن الاشرس نام کے کوئی راوی نہیں۔ ٧٦ اتحاف ص ٨٠ ٧٧ ایضاً حسن الزمان خان لکھتے ہیں کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے اس سند کے رجال میں حسب ذیل حضرات میں سے کسی نے کلام نہیں کیا حالانکہ احوال رجال میں یا تو ان کی مستقل تصانیف ہیں یا انہوں نے اپنی روایات کے ذیل میں رجال پرگفتگو کی ہے : ابوحنفیہ ،مالک، دونوں سفیان ،شعبہ ،قطان اور ان کے طبقہ کے لوگ ،شافعی ،ابن مہدی ،ابن سعد ،احمد، ابن معین،ابن المدینی، فلاس،ابوخیثمہ اور ان کے طبقہ کے لوگ ،ابو زرعہ ،بخاری ،ابو حاتم ،مسلم ،جوزجانی اور ان کے طبقہ کے لوگ، ابوداود ،ترمذی، بزار،نسائی ،طبری، ابن خزیمہ ، بغوی،دولابی ،طحاوی ،عقیلی ابن ابی حاتم، ساجی ،ابن یونس ،ابواحمد، حاکم ،مسلمہ ،اسماعیلی ،ابن الجارود، طبرانی، ابن حیان (حالانکہ انہوں نے ائمہ تک کو ضعفاء میں ذکر کیاہے )ابن عد ی (حالانکہ انہوں نے اپنی ''الکامل فی الجرح'' میں یہ یہ شرط کی ہے کہ وہ اس میں ہر ایسے شخص کا ذکر کریں گے جس کے بارے میں کلام کیا گیا ہو چاہے وہ امام ہی کیوں نہ ہو) ابن شاہین، ازدی، دار قطنی ،حاکم ،ابو نعیم ،ابو ذر، بیہقی ، خطیب،ابو عمر ،ابن طاہر المقدسی ،ابن ناصر ،ابن جوزی ،ابن اثیر ،ابن صلاح ،ضیاء ابن قطان ابن عبدالسلام ،سمعانی ،ابن عساکر ،ابن النجار ،نووی ،مزی ،علائی ،ابن الترکمانی ،مغلطائی ،ابن تیمیہ ،ذہبی ،سبکی ،عراقی ،ابن حجر سخاوی سیوطی اور ابن عراق ،(القول ١/٢٠٢،٢٠٣)