ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
|
امام مسلم کی جانب یہ بات اس لیے منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں قتادہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ''واللّٰہ ماحدثنا الحسن عن بدری مشافہة '' ٤٦ یعنی خدا کی قسم ہم سے حسن نے کسی بدری سے مشافہة کوئی روایت نہیں کی ۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی مسلم کی طرف عدم اتصال کے انتساب کی دلیل میں قتادہ کا یہی قول پیش کیاہے ٤٧ حقیقت یہ ہے کہ قتادہ اپنے اس قول سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حسن نے جو روایات ہم سے بیان کی ہیں ان میں کسی بدری سے مشافہة کوئی روایت نہیں ۔وہ یہ نہیں کہنا چاہتے کہ حسن نے کسی بدری سے کوئی روایت کی ہی نہیں ۔اور اگرحسن نے قتادہ سے کوئی ایسی روایت بیان نہیں کی تو اس سے یہ تو لازم نہیں آتا کہ انہوں نے کسی بدری سے کوئی بات سنی ہی نہ ہو ۔یہ تو جب لازم آتا کہ قتادہ نے کہا ہوتا کہ حسن نے ہم سے بیان کیا ہے کہ ہم سے کسی بدری نے حدیث بیان نہیں کی یا یہ کہا ہوتا کہ حسن نے صحابہ سے جو کچھ روایت کیا ہے وہ سب ہم سے بیان کردیا ہے اور اس ذخیرہ میں کسی بدری سے کوئی روایت نہیں ۔ قتادہ کے قول کی یہ تاویل اس لیے بھی درست ہے کہ جو بات انہوں نے حسن کے بارے میں کہی ہے اسی طرح کی بات سعید بن المسیب کے بارے میںبھی کہی ہے ۔وہ کہتے ہیں : ''واللّٰہ ماحدثناالحسن عن بدری مشافہة ولا سعید غیر سعد'' ٤٨ یعنی حسن کی طرح سعید نے بھی ہم سے سعد (ابن ابی وقاص) کے سوا کسی اور بدری سے مشافہة کوئی حدیث بیان نہیں کی ۔اگر اس کا مطلب یہ ہو کہ سعد ابن بی وقاص کے سوا کسی بدری صحابی سے سعید ابن المسیب نے مشافہة کوئی روایت ہی نہیں کی تو یہ درست نہیں کیونکہ سعد بن ابی وقاص کے علاوہ دوسرے صحابہ سے بھی ان کی مشافہة روایت کا ثبوت کتب ِحدیث سے ملتا ہے۔امام بخاری نے تاریخ صغیر میں سعید بن المسیب کا یہ قول ذکرکیا ہے کہ میں نے علی اور عثمان کے درمیان صلح کرائی ۔ ٤٩ امام بخاری نے اپنی جامع صحیح میں بھی سعید بن المسیب کی اس روایت کی تخریج کی ہے کہ عسفان کے مقام پر عثمان اور علی کے درمیان میرے سامنے اختلاف ہوا ٥٠ بخاری ،مسلم،ترمذی اور تہذیب مزی میں ایسی متعدد روایتیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سعید بن ٤٦ مسلم ١/١٠٧ ٤٧ قرة ص ٣٠١ ٤٨ مسلم ١/١٠٧ ٤٩ تاریخ صغیر ص ١٠٥ حج کے موقع پر افراد وتمتع کے بارے میں حضرت عثمان اور حضرت علی کے درمیان جو اختلاف ہوا تھا ،یہ صلح اس سے متعلق تھی ۔ ٥٠ صحیح بخاری ١/٢١٣