ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2003 |
اكستان |
|
گئے ٣ مگر بڑے بھائی آپ کے اگلے روز جاکر اور مولوی صاحب سے کہہ کر لوٹا لائے حاجی صاحب کو ازحد رنج ہوا پھر آپ حصولِ علم کے شوق میں دہلی تشریف لے گئے لیکن والد ماجد کی علالت کے باعث کچھ عرصہ بعد ہی واپس دیوبند تشریف لے آئے۔ بہت روز ان کا علاج کراتے رہے لیکن وہ صحت یاب نہ ہوسکے اور وفات پاگئے ۔ان کی وفات کے بعد آپ نے تجارت کا سلسلہ شروع کیا اور عطار کی دکان کرلی ۔ان دنوں ایک بزرگ حضرت میاں جی کریم بخش صاحب انصاری رامپوی ٤ ( بقیہ حاشیہ صفحہ گزشتہ)''علماء ہند کا شاندار ماضی ''جلد سوم میں ''علماء صادق پور'' کے حالات میں دئیے گئے ہیں جن کا خاصہ یہ ہے کہ مجاہدِ کبیرحضرت مولانا ولایت علی صاحب فاروقی قدس سرہ العزیز ایک نہایت متمول اعلیٰ خاندان کے چشم وچراغ تھے۔آپ پٹنہ (بہار)کے رہنے والے تھے لکھنؤ میں پڑھنے آئے اور تحصیل علوم کی اورمایۂ ناز عالم بنے اسی زمانہ میں سیّد صاحب اپنے وطن مالوف رائے بریلی جاتے ہوئے لکھنؤ قیام فرماہوئے ان کے استاد مولانا محمد اشرف صاحب جو بہت بڑے منطقی فلسفی عالم تھے اپنے اس مایۂ ناز شاگرد کو لے کر سیّد صاحب سے ملنے گئے ۔تخلیہ چاہا سیّد صاحب پورے عالم نہ تھے لیکن آیت مُبارکہ وماارسلناک الارحمة للعٰلمین(ہم نے آپ کو ا سی لیے بھیجا ہے کہ تمام جہانوں پر رحمت ہو) پر بیان شروع فرمایا۔یہ سلسلہ بیان دو گھنٹے جاری رہا جس کا اتنا اثر ہوا کہ منطق وفلسفہ اور اعتراضات سے ذہن خالی ہو گیا اور بقول سوانح نگار''دونوں کی ڈاڑھیاں روتے روتے تر ہوگئیں ''یہی مولانا ولایت علی صاحب ہیں جو سیّد صاحب کے ساتھ رہے ۔سیّد صاحب کا پٹنہ وغیرہ کا کامیاب دورہ کرایا بقول ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر ان کے(سیّد صاحب کے )مریدوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک باقاعدہ نظام حکومت کی ضرورت پیش آئی۔ انہوں نے باقاعدہ اپنے ایجنٹ مقرر کیے تاکہ ہر اس شہر سے جو ان کے راستہ میں پڑتا ہو تجارت کے منافع پر ٹیکس وصول کریں اس کے بعدانہوں نے چار خلیفے مقرر کیے یعنی رُوحانی نائب اور ایک قاضی القضاة مقرر کیا۔ اور اس کے لیے باقاعدہ فرمان جاری کیا جیساکہ مسلمان بادشاہ اپنے صوبہ جات میں اپنے گورنر مقرر کرتے وقت کیا کرتے تھے اس طرح پٹنہ میں ایک مستقل مرکز قائم کرنے کے بعد یہاں سے روانہ ہوئے ۔اس میں ان خلفاء کے نام نہیں لیے گئے غالباًان کے نام یہ ہیں مولانا سیّد مظہر علی صاحب ،مولانا الٰہی بخش صاحب ،مولانا ولایت علی صاحب اور قاضی القضاة مولانا شاہ قاضی احمد حسین صاحب (شاندار ماضی جلد سوم از اول تا ٦٨) پھر مولانا ولایت علی صاحب نے سیّد صاحب کی شہادت کے بعد ''پٹنہ ''کوبھی مرکز بنایا اور'' ستھانہ'' میں بھی جہاں بالاکوٹ سے بچے ہوئے مجاہدین نے نوشہرہ کے علاقہ میں دریائے سندھ سے اُوپر ''کوہ ستھانہ'' میں (جو ساڑھے سات ہزار فٹ کی بلندی پر ہے) اپنا مرکز بنا لیا تھا (جب آریا ترکِ وطن کرکے کوہ ہندوکش سے گزر کر اس مقام پر پہنچے تھے تو انہوںنے اسے ''مہابن ''کا نام دیا تھا اس وقت یہ بہت عظیم بن تھا) ادھر پٹنہ کے مرکز سے بنگال اور بہار میں اپنے رسائل کے ذریعہ جو سو کے قریب تھے ،مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کیا اور ادھر ''ستھانہ'' سے جہاد بالسیف بھی کیا ۔سیّد صاحب کے بعد بالکل اسی طرز پر فریضہ جہاد کی ادائیگی میں آپ ہی اُن کے جانشین ہوئے۔ آپ کی پیدائش ١٢٠٥ھ میں اور وفات ١٢٦٩ھ١٨٥٢ء میں بعمر ٦٤ سال بعارضہ خناق ہوئی ''ستھانہ''میں مدفون ہوئے''دخل خلداً ''تاریخ وفات ہے ۔مولانا کے حالات ہر عالم کے لیے ایک درس ہیں مگر یہاں بیان کی گنجائش نہیں، دیکھیں شاندار ماضی جلد سوم(حامد میاں غفرلہ)۔ ٣ اگر سفر میں جانا ہو جاتا تو ''ستھانہ'' جا کر جہاد میں شرکت ہو سکتی تھی مگر خداوند کریم کو آپ سے دوسرے کام لینے تھے۔ ٤ یہ رامپور ضلع سہارنپور کی ایک بستی کا نام ہے اسے رامپور منہیار ان کہا جاتا ہے ،ریاست رامپور مراد نہیں ہے۔حضرت حاجی محمد عابد صاحب رحمة اللہ علیہ کو چاروں سلسلوں میں حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی قدس سرہ سے بھی اجازت تھی جیسا کہ آگے آئے گا انشاء اللہ۔