ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
ہیں ،کھانا بھی پکا رہے ہیں اور کوئی بول بھی نہیں سکتا ہے اور جہاں کوئی بولا تو انہوں نے کہا کہ میں امیرہوںواجب الاطاعت ہوں اس لیے لوگ عاجزآگئے۔ اس سفر میں ایک لطیفہ بھی پیش آیا وہ بھی سنادوں گو مضمون سے متعلق نہیںمگر اس واقعہ کاجز ہے کہ ایک روز حضرت صدیق اکبر نے کھانا وغیرہ پکادیا مگر کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیا کسی کام سے باہر تشریف لے گئے ۔ایک صحابی کو بھوک بے تحاشہ لگی ۔انہوں نے کھانے کے نگران سے کہا کہ بھائی !کم ازکم مجھے ایک روٹی دے دو ۔ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے ۔مجھ سے تواُٹھا بھی نہیں جاتا ۔ نگران نے کہا جب تک امیر نہیں آئیں گے او راُن کی اجازت نہیں ہوگی تو میں کھانا نہیں دوں گا۔ اُنہوںنے بہت منت سماجت کی کہ بھائی مجھ پر ضعف طاری ہو رہا ہے ۔بھوک ستا رہی ہے ۔ایک آدھ روٹی دے دو ۔ کچھ سہارا ہو گا انہوںنے پھر انکار کیا اور اُن کو روٹی نہیںدی توصحابہ جیسے مقدس ہیں ویسے ہی طبائع کے اندر خوش طبعی بھی ہے ۔فرمایا اچھا میںتجھے سمجھوں گا نہ دے توروٹی ... اسی حال میں بھوکے بیٹھے رہے ،کچھ دیرکے بعد وہ جنگل کی طرف اُٹھ کر چلے ۔اچانک دیکھا کہ ایک دیہاتی اُونٹ پر بیٹھا ہو اآرہا ہے ... وہ گائوں کا مکھیا تھا ۔لباس سے ہی معلوم ہو رہا تھا کہ کوئی گائوںکا بڑا آدمی ہے او ر اچھی خاصی بڑی عمدہ اُونٹنی پر سوار ہو کر آرہا ہے ۔ان صحابی نے کہا کہ چودھری صاحب کہاں جا رہے ہو؟ انہوںنے کہا کہ مجھے ایک غلام خریدنا ہے کھیتی باڑی کے کام کے لیے۔انہوںنے کہا کہ میرے پاس غلام موجود ہے اورپانچ سو درہم میں بیچ سکتا ہوں۔چودھری صاحب نے کہا کہ پانچ سودرہم کوئی بڑی بات نہیں ہے اگر غلام اچھا ہے۔ انہوں نے کہا بہت سمجھدار ہے۔ معاملہ طے ہو گیا او ر پانچ سو درہم لے کر اشارہ اُن کی طرف کیا جنہوں نے روٹی نہیں دی تھی کہ وہ بیٹھا ہوا ہے اُس کا جا کر پکڑلو ۔اور یہ بھی کہہ دیا کہ اس کے دماغ میں تھوڑی سی سَنک ہے، جب کوئی پکڑنے جا تا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں غلام کب ہوں ؟ میں تو آزاد ہوں ۔ اس کا خیال نہکیجیو۔ انہوںنے کہاکہ سمجھ گیا بعضوں کے دماغ میں ہُوا کرتی ہے ایسے ہی انہوں نے کہا کہ چلائے گا بھی کہ میں غلام کب ہوں ؟ میں تو حُرہوں ، آزاد ہوں ، اس کا بھی خیال نہکیجیو۔ یہ اس کی عادت ہے انہوںنے کہا میں سمجھ گیا ہوں ۔ چودھری صاحب نے جا کر اس کا ہاتھ پکڑا او ر کہا کہ چل میرے ساتھ ۔اس نے کہا کہ کہاں