ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
چوٹی کے شریف اور خاندانی نواب کہلاتے تھے ۔ہرمزان اپنے ذاتی جوہر وں میں بھی ممتاز تھا۔اسی وجہ سے قادسیہ کے معرکہ میں میمنہ کی کمان جس میں تقریباً بیس ہزار نبردآزما تھے اس کے سپرد تھی ۔ جنگ قادسیہ کا فیصلہ فارس کے برخلاف ہوچکا تو ہر مزان نے بھی بھاگ کر جان بچائی۔ اہواز پہنچ کر وہاں کی خود مختار انہ حکومت سنبھال لی او ر مسلمانوں پر غارت گرانہ حملے شروع کر دیے،متعدد بار لشکرِ اسلام کے حملوں سے مغلوب ہوکر صلح کی اور جزیہ دینا قبول کیا ۔ لیکن ہرمزان کو عہد شکنی کی عادت پڑی ہوئی تھی اس لیے ہر دفعہ عہد کو توڑ کر آمادۂ جنگ ہوا ، ایک بار وہ مقابلہ پر آیا او ر شکست کھا کر گرفتار ہوا او ر دربارِ فاروقی میں پیش کیا گیا ۔ ''حضرت عمر نے ہرمزان سے فرمایا کہ تیرے پاس باربار عہد شکنی اور مسلمانوں کے اذیت پہنچانے،ان کو قتل وہلاک کرنے کا کیا جواب اورکیا عذر ہے؟ ہرمزان نے کہا میں بوجہ اندیشۂ قتل اپنا عذر وجواب بیان نہیں کر سکتا،اگر آپ امن دیں تو بیان کروں ۔آپ نے فرمایا لاتخف (اندیشہ مت کرو)اس کے بعد اس نے پینے کے واسطے پانی طلب کیا جو ایک بھدے بد ہیٔت لکڑی کے پیالہ میں لا کر دیا گیا ۔ اس نے کہا اگر میں پیاس سے مر بھی جائوں گا تب بھی ایسے پیالہ میں پانی نہیں پی سکتا ،اس پر اس کی مرضی کے موافق گلاس میں لا کر پانی دیا گیا ۔ا س نے گلاس ہاتھ میںلے کر سخت مضطر بانہ اندازسے کہا ،مجھے اندیشہ ہے کہ پانی پینے کی حالت میں قتل نہ کردیاجائوں۔آپ نے فرمایا :''لا بأس علیک حتی تشربہ ۔ پانی پینے تک کچھ اندیشہ نہیں ہے۔''ہر مزان نے یہ سن کر پانی گرادیا ۔آپ نے فرمایا۔اعیدواعلیہ ولاتجمعوا علیہ بین القتل والعطش۔(اس کو اور پانی دے دو ۔پیاس او ر قتل کو اس کے لیے جمع مت کرو)۔ ہرمزان نے کہا کہ مجھے پانی پینا منظور نہیں ،نہ پیاس ہے۔ مجھے تو اس بہانے سے امن حاصل کرنا تھا۔ آپ نے فرمایا میں تجھے قتل کیے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ اس نے کہا آپ مجھے امن دے چکے ۔فرمایا ہرگزامن نہیں دیا ۔ اس پر حضرت انس بولے امیرالمؤمنین ! یہ سچ کہتا ہے آپ نے اس کو امن دیا ہے ۔آپ نے فرمایا کیا میں براء بن مالک اور مجزئہ بن ثور جیسے لوگوں کے قاتل کو امن دے سکتاہوں؟ تم یا تو اس کی کوئی دلیل بیان کرو ورنہ تم کو بھی باطل کی تائید کی وجہ سے تنبیہ کی جائے گی۔حضرت انس نے فرمایا آپ اس کو فرماچکے ہیں :''لا بأس علیک حتی تُخبرنی ولا